امریکا نے غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی کونسل کو بیان دینے سے روک دیا

واشنگٹن جنگ بندی کے حصول کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری میں مصروف ہے، ذرائع

بدھ 12 مئی 2021 19:54

نیو یارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2021ء) سفارتکاروں اور واقف کار ذرائع کے مطابق امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اسرائیل اور فلسطین کے مابین کشیدگی کے بارے میں عوامی بیان سے روک دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ تشدد کے خاتمے کے لیے پس پردہ کی جانے والی کوششوں کے لیے عوامی نوعیت کا بیان نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن جنگ بندی کے حصول کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری میں مصروف ہے۔انہوں نے بتایا کہ امریکا کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس وقت کونسل کا بیان معاملات کو سنگین بنا سکتا ہے۔ سلامتی کونسل نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسجد اقصیٰ اور اس کے آس پاس حملوں پر نجی گفتگو کی۔

(جاری ہے)

گزشتہ ہفتے جاری اسرائیلی تشدد کے بعد 15 رکنی سلامتی کونسل نے ایک ڈرافٹ بیان پر بات چیت کا آغاز کیا تھا جس میں اسرائیلی حملوں اور فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جائے گا جس میں اسرائیل سے یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں کو معطل کرنے، فلسطینیوں کے گھروں تباہ اور ان کی بے دخلی کو روکنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

سفارت کاروں نے کہا کہ امریکا نے کونسل کے ہم منصبوں سے کہا کہ اس وقت انہیں بیان جاری نہیں کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے کہا کہ امریکا کوشش کر رہا ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے اٹھائے جانے والے کسی بھی عمل سے خطے میں کشیدگی میں کمی کا سبب بنے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن کشیدگی میں کمی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا منتظر ہے چاہے یہ اقدامات اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی یا سلامتی کونسل کی طرف سے سامنے آئیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجرک نے بتایا کہ اقوام متحدہ تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر کشیدہ صورتحال کو فوری طور پر کم کرنے کی کوشش کررہاہے۔انہوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے 'بچوں سمیت بڑی تعداد میں ہلاکتوں' پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اسرائیل کا یہ جائز حق ہے کہ وہ حماس کے راکٹ حملوں سے اپنا دفاع کرے لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں پر صرف اتنا کہا کہ تل ابیب کو 'بقائے باہمی رہنا چاہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن کو اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کی جانب سے تازہ معلومات موصول ہوئی ہیں اور ان کی ساری توجہ کشیدگی میں کمی پر مرکوز ہے۔۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے حماس اور دوسرے گروہوں کے راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ جوبائیڈن کی اسرائیل کی سلامتی، اس کے اپنے اور اپنے عوام کے دفاع کے جائز حق کے لیے حمایت بنیادی ہے اور اس میں کمی نہیں ہوگی۔