کہتا ہوں جھوٹ کہ سچ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 13 مئی 2021 14:20

کہتا ہوں جھوٹ کہ سچ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2021ء) ایک محترمہ سے کچھ معاملات پر بات کرنے کے لیے فون پر رابطہ کیا تو بڑے چاؤ سے بولیں کہ بھئی فون پر نہیں، آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ بہت عرصے سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ ہم نے نہایت خوش دلی سے ان کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے دن اور وقت پوچھا تو بولیں کہ ارے بھئی! میں کوئٹہ آئی ہوئی ہوں۔

بس چند دن تک واپسی ہے۔ تو پھر بیٹھتے ہیں انشاء اللہ۔ سوئے اتفاق اسی دن شام میں بہن کا دندان ساز سے اپائنٹمنٹ تھا۔ سو ہم ان کے ہمراہ ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ انتظار گاہ میں بیٹھے تھے کہ اچانک وہی خاتون کمرے میں داخل ہوئیں۔ ہم پہ نظر پڑتے ہی سٹپٹا کر بولیں۔ ارے! تم یہاں کیسے؟ میں نے کہا کہ یہ سوال تو ہمارا بنتا ہے کہ آپ چند گھنٹوں میں کوئٹہ سے یہاں کیسے پہنچ گئیں؟

انگریزی زبان میں نیلے اور کالے جھوٹ کی اصطلاحات بھی موجود ہیں۔

(جاری ہے)

اگر جھوٹ بول کر ذاتی مفادات حاصل کیے جائیں تو اسے کالا جھوٹ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر اجتماعی مفادات کے لیے جھوٹ بولا جائے یا کسی اجتماعی شرمندگی سے بچنے کے لیے جھوٹ بولا جائے تو اسے نیلا جھوٹ کہتے ہیں۔

یوں تو ماہرین کے خیال میں جھوٹ کو انسان کی حرکات و سکنات سے پکڑا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اصول و ضوابط بھی متعین ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں سے تفتیش کے دوران ان اصول و ضوابط کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔

لیکن انسان ایک بہت پیچیدہ مشین ہے، جسے اصولوں کے دائرے میں سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ایک چھوٹے بچے کے بارے میں تو ہم یقین کر سکتے ہیں کہ اس کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے اس کا جھوٹ پکڑا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک عادی مجرم کو اپنے اتاثرات پر پورا کنٹرول ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں تو ہر دوسرا شخص جھوٹ بولنے کا اس قدر عادی ہے کہ ان کے جھوٹ پر سچ کا ہی گمان ہوتا ہے۔

خاص طور پر ہمارے سیاست دانوں میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ جھوٹ اگر تواتر سے بولا جائے تو سچ کا گمان غالب آ جاتا ہے لہذا اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے سیاست دان جھوٹے وعدوں اور نعروں کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو سبز باغ دکھا کر اقتدار حاصل کرنا ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ عوام ان کے دکھائے سنہرے خوابوں کے پیچھے چلتے ہوئے ووٹ ڈالتی ہے۔

پھر اس کے بعد اپوزیشن کا سچ حکمران جماعت کے جھوٹ کا پردہ فاش کرتا رہتا ہے۔ پھر نئے خواب بنے جاتے ہیں۔ پھر سے جھوٹے وعدے پھر سے جھوٹے نعرے ۔۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا آرہا ہے اور شاید یونہی چلتا رہے۔

بقول شاعر

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

"جیسی روح ویسے فرشتے" کے مصداق عوام بھی جھوٹ بولنے میں اپنے سیاست دانوں سے کچھ کم نہیں۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ہر شخص دن میں کم از کم ایک بار جھوٹ ضرور بولتا ہے۔ لیکن اس تحقیق میں چونکہ پاکستانیوں کو شامل نہیں کیا گیا اس لیے اس تحقیق کے نتائج ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ ہمارے معاشرے کی بات کی جائے تو باس اور بیوی کے سامنے ہر منٹ میں ایک جھوٹ بولا جاتا ہے۔ لہذا کسی بھی تحقیق کے نتیجے میں یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ دن میں کتنا جھوٹ بولا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ جھوٹ ایک ایسی کنجی ہے جو ہر دروازہ کھول دیتی ہے۔ ایک ایسا منتر ہے جو ہر مشکل آسان بنا دیتا ہے۔ صبح آنکھ نہیں کھلی دفتر دیر سے پہنچے تو "سر بائیک پنکچر ہو گئی تھی" یا پھر "ٹریفک جام میں پھنس گیا تھا"۔ باس کی شرٹ چاہے توند پر کسی ہوئی کیوں نا ہو لیکن تبصرہ یہی کیا جائے گا کہ "سر یہ شرٹ تو آپ پر بہت سوٹ کر رہی ہے"۔

گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے بھی یہی منتر کام آتا ہے۔ گھر دیر سے آئیں تو ہاتھوں کو تھوڑا سا گریس لگا کر کالا کر لیں کہ راستے میں گاڑی یا بائیک خراب ہو گئی تھی۔ اصل امتحان تو اس وقت ہوتا ہے جب بیگم یہ سوال کریں کہ "میں کیسی لگ رہی ہوں"۔ اب یہ شوہر کے بیانیے پر منحصر ہے کہ جھوٹ کا بول بالا ہو گا یا سچے کا منہ کالا۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت۔

لیکن جھوٹ کو اس سے کوئی غرض نہیں وہ روز بروز پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ روزمرہ گفتگو میں دونوں فریقین ایک دوسرے کے جھوٹ سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے بھی گفتگو جاری رکھتے ہیں۔ ایک خاتون دوسری خاتون سے سوال کرتی ہیں کہ شال تو بہت خوبصورت ہے کہاں سے لی؟ فوراً جواب آئے گا کہ "پچھلے مہینے دبئی گئی تھی وہیں سے لی ہے"۔ یہاں سوال پوچھنے والی خاتون طارق روڈ پر ویسی ہی شال دیکھ کر قیمت بھی معلوم کر چکی ہیں۔

لیکن اس مرحلے پر وہ بغیر کوئی تاثر دیے اس جھوٹ کو ہضم کر جائیں گی۔ کیونکہ یہ روزمرہ زندگی میں گفتگو کا ایک انداز بن چکا ہے۔ جب کہ بچپن سے ہماری تربیت میں جھوٹ بولنے سے روکنا شامل رہا ہے۔

ہمارے گھروں میں بچوں کو جھوٹ بولنے سے روکنے کے لیے کئی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلا اکثر والدین اپنے بچوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر جھوٹ بولو گے تو زبان کالی ہو جائے گی۔

بچے بار بار شیشے میں اپنی زبان چیک کرتے تھے کہ کہیں کالی تو نہیں ہو گئی۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھی تو پتہ چلا کہ کالی زبان ہونا تو ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔

جھوٹ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناسور ہے جو پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ اب اس مرض کو مرض کے بجائے اہلیت تصور کیا جاتا ہے۔ ایک سیلز مین جھوٹ عادتاً نہیں بولے گا بلکہ یہ اس کی نوکری کی بنیادی شرط ٹھہرے گی۔

وہ لوگ جن کا رویہ سچ بولنے میں لچکدار ہو سیلز کی دنیا میں کامیابیاں ان کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ سیلز کی نوکری میں جھوٹ کو بطور سٹریٹجی بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گاہک کی پسند اور نا پسند کے مطابق مال کی کوالٹی بیان کی جاتی ہے۔

جھوٹ کا عمل دخل ہماری زندگیوں میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس سے فرار ممکن نظر نہیں آتا۔ اکثر افراد یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا زمانہ آگیا ہے۔

حقیقتا تو زمانہ ہم نے خود ہی بنایا ہے۔ معاشرے انسانوں سے ہی وجود پاتے ہیں۔ اور پھر اخلاقی قدریں بھی ہم ہی طے کرتے ہیں۔ فی زمانہ برائی کو روکنا تو دور کی بات ہے۔ ہم نے برائی کو برائی سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے روزمرہ کے بولے جانے والے جھوٹ کب کہاں کیسے اور کس طرح ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں ہمیں شاید اس کا اندازہ نہیں۔ اس کردار کے ساتھ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو کوئی بہتر بنیاد فراہم کر پائیں گے؟ بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے پہلے اپنے کردار کا درست ہونا بنیادی شرط ہے۔