چاند کی عمرگھٹانا بڑھا کون سی بڑی بات ہے؟ نئے پاکستان میں سب کچھ ممکن

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 13 مئی 2021 21:00

چاند کی عمرگھٹانا بڑھا کون سی بڑی بات ہے؟ نئے پاکستان میں سب کچھ ممکن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2021ء) عید کا چاند مسلم ثقافت میں ایک انتہائی منفرد علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی کو بہت زیادہ اہمیت دینی ہو، کسی کو یہ احساس دلانا ہو کہ اُس کے دیدار کے لیے کوئی کتنا بے چین اور بے قرار ہے تو اکثر یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے،'' آپ تو عید کا چاند ہو گئے ہیں۔‘‘ یعنی سال میں ایک بار اور بہت باریکی سے ڈھونڈنے پر نظر آتے ہیں۔

بچپن میں ہم عید کا چاند دیکھنے چھتوں پر چڑھا کرتے تھے۔ بچوں کی آپس میں شرط لگتی تھی کہ چاند سب سے پہلے کسے نظر آئے گا۔ معصوم سی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کبھی بہت اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ پھر سائنسی ترقی نے اس کام کو آسان کر دیا اور لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی بجائے محکمہ موسمیات کے اعلان پر انحصار شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

مختلف مسلم معاشروں میں اس سلسلے میں مختلف نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔

کچھ نے تو سائنس کی مدد سے اپنا پورے سال کا کیلنڈر تیار کرنا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر ترکی۔ ترک مسلمان اپنا ہر سال کا کیلینڈر پیشگی طور پر تیار کر کے اس کے حساب سے تمام ماہ و ایام کا تعین کر لیتے ہیں۔

مجھ سے کوئی بھی مروت میرے فنکار نہ مانگ

رویت ہلال کمیٹی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں باقاعدہ ایک بل کی منظوری کیساتھ 1974 ء میں رویت ہلال کمیٹی کا باقاعدہ قیام وجود میں آیا۔

یہ کمیٹی اتنی اہم اور طاقتور ثابت ہوئی کہ مہتاب عید نے اس سے شرمانا، اس کے لحاظ میں چھپنا شروع کردیا۔ ہر سال رمضان کے اختتام پر پاکستانی عوام چاند نہیں رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے منتظر رہنے لگے۔ ملک میں دو دو تین تین عیدیں منائی جانے لگیں کیونکہ چاروں صوبوں کے لیے بھی علیحدہ علیحدہ رویت ہلال کمیٹی قائم کی گئی تھی تو انہیں بھی تو اپنی کارکردگی دکھانا ہوتی ہے۔

شمالی علاقوں سے لے کر جنوبی علاقوں تک چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کے فیصلے علیحدہ علیحدہ کیے جانے لگے۔ کبھی کبھی تو سحری کے لیے اُٹھنے والے روزیداروں کو پتا چلتا کہ عید کے چاند کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

چڑیوں کی چہچہاہٹ کہاں گم ہو گئی ؟

نئے پاکستان میں پُرانی تواہم پرستی

تواہم پرستی پر کسی کی اجارہ داری نہیں، مشرقی سے لے کر مغربی معاشروں تک میں توہم پرستی پائی جاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں اکثر یہ سنا گیا کہ جمعے کی عید حکمران پر بھاری پڑتی ہے۔ ہم نے پاکستان میں اکثر عملی طور پر یہ دیکھا کہ حکمرانوں کی کوشش رہی کے کسی طرح عید جمعے کی نہ ہو۔ اس سلسلے میں ہمارے حکمران، مذہب کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ہوں یا 'سیکولرازم کا لبادہ‘ اُوڑھے ہوئے، سب ہی نے کبھی نا کبھی اپنی توہم پرستی ظاہر کی۔ اب نئے پاکستان میں حکومت ملک کو جدیدیت کی طرف گامذن مگر 'ایک سچا اسلامی معاشرہ‘ بنانے کا عزم رکھتی ہے۔

ایسے میں قول و فعل کا تضاد عام انسان کے ہاضمے کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ اگر سیاسی فیصلوں پر کسی خاص سوچ یا نظریے کے اثرات مرتب ہونے لگیں تو ہر چھوٹے بڑے فیصلے کو لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ گزشتہ برس وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا تھا کہ سائنس اتنی ترقی کر چُکی ہے کہ ہم بھی اپنا سالانہ کیلینڈر پہلے سے تیار کر سکتے ہیں اور اس کی مدد سے ہم عید کا تعین کیا کریں گے۔

چار روز قبل فواد چودھری نے 'رویت ایپ ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں عید 14 مئی کو ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے رویت ہلال کمیٹی کو ناراض نہ کرنے کے عمل کو یقینی بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں حتمی اعلان اس کمیٹی کی طرف سے ہو گا۔

صلاح الدین نہیں، انسانیت نے دم توڑ دیا

اب ہوا یہ کہ رویت ہلال کمیٹی کے اراکین لگتا ہے ذہنی طور پر اتنی تیزی سے چاند کو ہویدا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

چار و ناچار انہیں ایسا کرنا پڑا۔ جمعرات کی عید کا اعلان کر دینے ہی عافیت تھی، اگر جمعے کی عید کا اعلان کر دیا جاتا اور حکومت پر کوئی نئی ' آفت‘ آتی تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ اتنی بڑی ذمہ داری کون اپنے سر لیتا؟

قمری کیلینڈر کے حساب سے چاہے شوال کا آغاز جمعے سے کیوں نہ ہو، 'عید جمعرات کی ہی مناسب تھی ،' روحانی اعتبار سے ملنے والی رہنمائی کو ملحوظ رکھنا ایک بہت مثبت رویہ ہے۔‘

کشور مصطفیٰ