اسرائیل کے غزہ میں محصور فلسطینیو ں پر فضائی حملے جاری‘ہلاکتوں کی تعداد132ہوگئی

صیہونی فوجوں کی جارحانہ کاروائیوں سے زیادہ تر عورتیں اور بچے متاثر ہورہے ہیں.فلسطینی حکام

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 15 مئی 2021 12:25

اسرائیل کے غزہ میں محصور فلسطینیو ں پر فضائی حملے جاری‘ہلاکتوں کی ..
غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 15 مئی ۔2021ء) اسرائیل کی جانب سے غزہ کی محصور پٹی کے مختلف علاقوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ مسلسل چھٹے روز بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 132 ہوچکی ہے غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی اور عرب سفارتکاروں کی جانب سے کشیدگی کے خاتمے کے مطالبات کے باوجود اسرائیلی جنگی جہازوں کے غزہ پر فضائی حملے جاری ہیں.

(جاری ہے)

فلسطین کے طبی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ پر فضائی حملے میں 4 افراد جاں بحق ہوئے ہیںمقامی افراد نے کہا کہ اسرائیلی بحریہ نے بحیرہ روم سے شیلز فائر کیے تاہم کوئی بھی محصور پٹی پر نہیں لگا فلسطینی وزارت مذہبی امور نے کہا کہ اسرائیلی جہازوں کی بمباری سے مسجد تباہ ہوگئی، ملٹری ترجمان کا کہنا تھا کہ آرمی رپورٹ کا جائزہ لے رہی ہے. فلسطین کے طبی حکام کا کہنا تھا کہ غزہ میں پیر سے اب تک 32 بچوں اور 21 خواتین سمیت 132 افراد جاں بحق اور 950 زخمی ہو چکے ہیں دوسری جانب حماس کا اسرائیلی فضائی حملوں کے جواب میں راکٹ حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اسرائیل کے دو اہم جنوبی شہروں میں غزہ سے راکٹ حملوں کے انتباہ کے لیے سائرن بجائے گئے.

اسرائیلی حکام نے کہا کہ راکٹ حملوں سے ہلاک ہونے والے 8 افراد میں 2 بچوں سمیت 6 شہری بھی شامل ہیں یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل بائیڈن انتظامیہ کے ایلچی ہادی امرنے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس کے بعد امریکا نے سلامتی کونسل کا اجلاس موخرکروانے کا اعلان کیااسرائیل میں امریکی سفارتخانے نے بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن کی تمام کوششوں کا مقصد پائیدار امن کے لیے کام کرنے کی ضرورت پر زور دینا ہے.

ادھرمصر سیز فائر کی کوششوں میں خطے کی قیادت کر رہا ہے مصری سیکیورٹی کے دو ذرائع نے کہا کہ قاہرہ مزید مذاکرات سے قبل دونوں فریقین سے سیز فائر پر زور دے رہا ہے مصر کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ نے غزہ میں محاذ آرائی کو ختم کرنے اور مقبوضہ بیت المقدس میں ”اشتعال انگیزی“ کو روکنے کے لیے کوششوں پر تبادلہ خیال کیا.

فلسطینی عہدیدار کا کہنا تھا کہ جمعہ کو بات چیت حقیقی اور سنجیدہ راستہ اختیار کر چکی ہے اور مصر، قطر اور اقوام متحدہ کے ثالثین امن کی بحالی کے لیے تمام فریقین سے روابط بڑھا رہے ہیں، تاہم اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے جمعہ کو متحدہ عرب امارات نے بھی فریقین سے سیز فائر اور مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا اسرائیلی فوج نے کہا کہ غزہ سے اسرائیل کی جانب 2 ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے جاچکے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف کو میزائل ڈیفنس سسٹم نے ناکارہ بنا دیا جبکہ 350 غزہ کی پٹی میں گرے.

خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے مقبوضہ بیت المقدس میں 7 مئی سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی.

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر 10 مئی کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث موخر کردیا تھا اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے.

8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے.

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے.

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا.

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ سے تقریباً 1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے.

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال 'وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے.

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں.