بالکونی کے پودے کتنے ماحول دوست ہوتے ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 16 مئی 2021 16:20

بالکونی کے پودے کتنے ماحول دوست ہوتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2021ء) بظاہر یورپ میں اپنے گھروں کی بالکونیوں کو پودوں سے سجانے میں سبھی قومیں شریک ہیں۔ اس کی وجہ سے کسی حد تک ماحولیاتی نقصان بھی ہو رہا ہے کیونکہ اکثر سستے پودے مناسب انداز میں گھروں اور مکانوں کی بالکونیوں میں نہیں اگتے اور ان کے لیے استعمال کی جانے والی مصنوعی کھادیں ماحول کے لیے مضر ہو سکتی ہیں۔

سپر مارکیٹوں اور پودوں کی دوکانوں پر ایسے سستے پودے آسانی سے دستیاب ہیں۔

مستقبل میں رات کی تاریکی سے نجات چمک دار درختوں کے ذریعے؟

سستے پودے

جرمن ماحول دوست تنظیم بی یو این ڈی (BUND) سے منسلک کیڑے مار ادویات کی ماہر کورینا ہوئلسل کے مطابق جرمنی میں سپر مارکیٹوں اور پودوں کی دوکانوں پر دستیاب پودے افریقی ملکوں ایتھوپیا، کینیا یا لاطینی امریکی ملک کوسٹاریکا سے درآمد کیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے ان پودوں کو ناپائیدار قرار دیا کیونکہ یہ طویل عرصے تک زندہ نہیں رہتے۔

ہوئلسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان ملکوں کی آب و ہوا ایسے پودوں کی افزائش کے لیے ساز گار ہے مگر ان پودوں کو وہاں سے دوسرے ممالک میں فروخت کے لیے برآمد کر دیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوائی جہازوں سے بھیجے جانے والے یہ پودے ماحول کو نقصان پہنچانے والی سبز مکانی گیسوں کے اخراج کا بالواسطہ باعث بھی بنتے ہیں۔

پودوں کی صحت کے لیے کیمیائی مادوں کا استعمال

برآمد کیے جانے والے پودوں کے محفوظ ہونے کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والا ایک گروپ ایم پی ایس ہے، جو کم از کم پچاس ملکوں کے تین ہزار سے زائد پلانٹ پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کو پلانٹ پروڈیوسرز برآمد کیے جانے والے پودوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں کہ کس پودے کے لیے کون کون سی کیڑے مار ادویات اور کھادیں کتنی استعمال کی گئی تھیں۔

اگر ان کیمیائی مرکبات کے استعمال میں غیر ضروری اضافہ کیا گیا ہو، تو پھر ایسے پودوں کے لیے ان کے محفوظ اور پائیدار ہونے کے سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیے جاتے۔

خطرناک کیمیائی مادے ناقابل قبول

ان سرٹیفیکیٹس کا مقصد فرٹیلائزر‍ سے حاصل ہونے والی مصنوعی توانائیوں کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پلانٹ پروڈکشن کا دوسرے علاقوں سے تقابل بھی کیا جاتا ہے۔

ایم پی ایس کے جرمن دفتر کی کارین اشپَینگے مان کا کہنا ہے کہ خطرناک کیمیکلز والے مرکبات استعمال کرنے والے پلانٹ پروڈیوسرز کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے پودوں سے مالی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن ماحول کو نقصان بھی پہنچتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ ایسے آرائشی پودوں کے محفوظ ہونے سے متعلق سرٹیفیکیٹس کے اجراء کے عمل کو ابھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

کورونا کا علاج: جرمن سائنسدان افسنتین پر ریسرچ میں مصروف

پودوں کے محفوظ ہونے کے سرٹیفیکیٹس

جرمن تنظیم بی یو این ڈی کی کورینا ہوئلسل کے مطابق درآمد کیے جانے والے پودوں کے لیے اس وقت دو طرح کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے جانے کا نظام رائج ہے اور ان کے تحت پودوں کی افزائش کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ ہوئلسل اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیادہ سخت ماحولیاتی اصول متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔

بی یو این ڈی کی اس خاتون ماہر کے مطابق جو کیڑے مار ادویات یا کیمیائی مادے استعمال کیے گئے ہوں، ان کی مکمل تفصیلات کی وضاحت بہت ضروری ہے اور یہ تفصیلات ابھی فراہم نہیں کی جاتییں۔ اس لیے ماحولیاتی اصولوں کے مطابق ایسے پودوں کی برآمد کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔

آرائشی پودوں کے لیے کم سے کم کیڑے مار ادویات کا استعمال زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے پودوں کے لیے بائیو مادوں کا استعمال ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔ کورینا ہوئلسل کے مطابق آرائشی پودوں کے لیے جینیاتی تبدیلیوں اور مصنوعی کھادوں کے استعمال کی ممانعت ہونا چاہیے۔

ٹِم رُوکس ، جینیٹ چویئنک (ع ح / م م)