طاقت سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ،یوسف رضا گیلانی

مسائل جنگوں سے حل نہیں ہوتے ہیں،مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام میں ہے،مقبوضہ فلسطین میں غیر قانونی آبادی روکی جائے، اپوزیشن لیڈر کشمیر اور فلسطین لہولہان ہیں ،دونوں کا مطالبہ ہے رائے شماری کی جائے ،عالمی امن فورس کو غزہ میں تعینات کیا جائے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی مظالم پر مقدمہ درج کیا جائے، قائد ایوان پاکستان کے قائدانہ کردار کو فلسطین سمیت پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور یہ نسلوں تک یاد رکھا جائے گا، شہزاد وسیم

پیر 24 مئی 2021 23:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مئی2021ء) سینٹ میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے واضح کیا ہے کہ طاقت سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ،مسائل جنگوں سے حل نہیں ہوتے ہیں،مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام میں ہے،مقبوضہ فلسطین میں غیر قانونی آبادی روکی جائے، کشمیر اور فلسطین لہولہان ہیں ،دونوں کا مطالبہ ہے رائے شماری کی جائے ،عالمی امن فورس کو غزہ میں تعینات کیا جائے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی مظالم پر مقدمہ درج کیا جائے۔

پیر کو اجلاس شروع ہوا تو قائد ایوان شہزاد وسیم نے فلسطین میں اسرائیلی بربریت کے خلاف تحریک پیش کی اورکہاکہ ماہ رمضان میں اسرائیل نے بربریت کی ،مسجد اقصیٰ پر بمباری کی گئی ،ایوان فلسطین میں ہونے والے مظالم پر بحث کرے جس کے بعد ایوان نے تحریک پر بحث کی منظوری دے دی۔

(جاری ہے)

بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سینیٹ یوسف رضاگیلانی نے کہاکہ فلسطین پر حملہ بند کئے جائیں ،طاقت سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے ،مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام میں ہے،مقبوضہ فلسطین میں غیر قانونی آبادی روکی جائے، فلسطین میں میڈیا دفتر پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

یوسف رضاگیلانی نے کہاکہ فلسطین پر ہم سب ایک ہیں فلسطینیوں کی حمایت سب سے اہم ہے ،ہم سفارتی اخلاقی حمایت پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں ،یہ مسئلہ 1948سے ہے اسرائیل ان پر مظالم کررہاہے اس کے اثرات ہیں اسرائیل اپنے مقاصد میں مظالم کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکا۔انہوںنے کہاہک اسرائیل کا جنگی جرائم سلیف ڈیفنس نہیں ہے،مسائل جنگوں سے حل نہیں ہوتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ کشمیریوں پر بھی ظلم کیا گیا آج بھی کشمیری حق خودارادیت کی جنگ لڑرہے ہیں کشمیریوں کے ساتھ ہماری اخلاقی سفارتی حمایت ہے۔ انہوںنے کہاکہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، منموہن سنگھ کو بھی اس کا پیغام دیا۔ انہوںنے کہاکہ عوام کو ریاست چاہیے ان کو دبایا نہیں جاسکتا ہے ،1974میں اسلامک سمیٹ لاہور میں ہوئی وہ ایک سنگ مین تھی۔

انہوںنے کہاکہ یاسر عرفات نے کہاکہ فلسطین لاہور میں پیدا ہوااور مسلم امہ فلسطین پر متحد ہوئی ،او آئی سی کی بنیاد اس سمٹ میں رکھی گئی تے تھی۔قائدایون شہزاد وسیم نے کہاکہ ایوان سے ایک قومی آؤاز جانی چاہیے قومی معاملات پر مل کر اپوزیشن اور حکومت کو چلنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ رمضان کے مقدس مہینے اور 27رمضان کی بابرکت رات مسجد اقصیٰ میں مسلمان عبادت کررہے تھے اسی دوران فضا میں بارود کی بو پھیلتی ہے اور دوسری طرف اسرائیلی جشن منا رہے تھے۔

انہوںنے کہاکہ طاقت کے بل بوتے پر 50ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کردیا جاتا ہے فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کیا گیا میڈیا نے دیکھایا تو اس کو بھی تباہ کردیا گیا،یہ پہلی بار نہیں ہوئے ہیں یہ مظالم ہم فلسطین کے ساتھ کشمیر میں بھی دیکھتے ہیں ،دونوں مسائل کی بنیاد اقوام متحدہ ہے جس کی طرف ہم انصاف کیلئے دیکھتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ فلسطین اور کشمیر دونوں لہو لہان ہیں ،دونوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ رائے شماری کی جائے،ایک طرف صہیونیت اور دوسری طرف ہندوتوا ہے،ایک طرف یہودیوں اور دوسری طرف ہندوؤں کو آباد کیا جارہاہے۔

انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کو پاؤں کے نیچھے روندہ جارہاہے۔ انہوںنے کہاکہ قائداعظم نے فلسطین کے لیے آواز اٹھائی ہے 1938میں قائد اعظم نے جمعہ کو ہی یوم فلسطین منایا تھا، یہ ہمارا نظریاتی اثاث ہے اور اس کے ہم امین ہیں۔ عمران خان نے مسئلہ فلسطین پر عالمی رائے عامہ کو منظم کیا،عمران خان نے امہ کو اکٹھا کیا وزیر خارجہ بھی اس مسئلے پر متحرک ہوئے۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان نے مسلم امہ کی ترجمانی کی، اسرائیل کو سیز فائر کرنے پر مجبور کیا،محمود عباس نے بھی اس پر اظہار تشکر کیا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے قائدانہ کردار کو فلسطین سمیت پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور یہ نسلوں تک یاد رکھا جائے گااس پر پاکستانی قوم کو فخر کرنا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ موجودہ مسئلہ فلسطین کے دوران دوہرا معیار بھی سامنے آیا۔

اسرائیل کے مظالم سے پردہ اٹھاتے ہیں تو اس کو تعصبانہ بات کہی جاتی ہے۔ اسلاموفوبیہ ہے جس کی وجہ سے دنیا کو خطرے کی طرف دھکیلاجارہا ہے اسلام فوبیہ پر بھی دنیا کو قانون سازی کرنی ہوگی انہوںنے کہاکہ فلسطین مدد کے لیے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں مالی امداد کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ انہوںنے کہاک ہپاکستان کے سکول مدرسہ کالج یونیورسٹیاں فلسطینی بچوں کے لیے کھلی ہیں ،عالمی امن فورس کو غزہ میں تعینات کیا جائے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی مظالم پر مقدمہ درج کیا جائے۔

انہوںنے کہاکہ آزاد فلسطین یارست کا قیام اور اس کا دارلخلافہ القدس ہو۔اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ فلسطین کے موضوع پر پوراہائوس متفق ہے ،فلسطینیوں پر جو ظلم ہوا ہے نا صرف ہائوس اسکی مذمت کرتا ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جے یوآئی کے قائد مولانا فضل الرحمان نے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ جمعہ کہ روز فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے ،جمعہ کے روز ملک بھر میں چھوٹے بڑے تمام شہروں میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا ،فلسطینیوں پر اس قدر ظلم کیا گیا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو شہید کیا گیا ،اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے اس واقعہ کو 70 سال سے ذائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ مسلم ممالک اس وقت تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ،قرارداد آئے روز پاس ہوتی ہے مگر عملی اقدامات نہیں ہورہے ۔ انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ امریکہ کی لابی ہے ، او آئی سی میں شامل جو حکمران ہے وہ جان بچائوں کی تحریک میں شامل ہے ،عرب لیگ کی پوزیشن بھی ایسی ہے وہ تماشا دیکھ رہے،فلسطین کے بچے صلاح الدین ایوبی کو تلاش کررہے۔

سینیٹر اعجاز چوہد ری نے کہاکہ فلسطینیوں کیساتھ ظلم، بربریت اور غیر انسانی سلوک اب نہیں ہو رہا، فلسطین میں بچے، خواتین جوان اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم پاکستان نے یکم جون 2019 میں فلسطین پر اپنا موقف پیش کیا،وزیر خارجہ خراج تحسین کے مستحق ہیں انہوں نے یواین سکیورٹی کونسل میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کا موقف رکھا،اسرائیل کو اس مرتبہ سوشل میڈیا کے دباؤکیوجہ سے پسپائی ہوئی۔

سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان نے فلسطین کے لئے کیا کیا ہے، فلسطین کے لئے سب کی دلوں میں محبت یکساں ہے، فلسطین پر اجلاس میں وزیراعظم کیوں نہیں ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ اچھا ہوتا وزیر اعظم بھی فلسطین کی یکجہتی میں آج یہاں شریک ہوتے، فلسطین کی نہتے عوام پر مسجد میں تشدد کیا گیا، فلسطین کا معاملہ ایک انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حالیہ کشیدگی میں 51 ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں، جس طرح کشمیر میں ہو رہی اسی طرح فلسطین میں جنگ ہو رہی ہے، جنگ بندی کے بعد بھی حملے ہو رہے ہیں، وہاں ہلال احمر تک کو جانے کی اجازت نہیں، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں او آئی سی بلائی۔شیری رحمانن نے کہاکہ یاسر عرفات نے کھڑے ہو کر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لئے تالیاں بجائیں، بہت سے مسلم ممالک اسرائل سے تجارت کر رہے، سفارت خانے کھولے ہوئے،اس سے اسرائیل کو تقویت ملی ہے۔

انہوںنے کہاکہ کوئی اور ملک اس طرح گولے برساتا تو ساری اقوام متحدہ میں پابندیوں کی بات ہو رہی ہوتی، گولے برسا کر کہتے ہیں ہمیں دفاع کا حق ہے۔ انہوںنے کہاکہ فلسطین کو مسمار کیا جا رہا ہے، جن کی زمین تھیں ان کو ریفیوجی بنا دیا گیا ہے، اسرائیل جنگی مظالم کر رہا ہے،اسرائیل اقوام متحدہ کے 30 قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا ہی ۔ انہوںنے کہاکہ اگر ایسا کسی مسلم ملک نے کیا ہوتا تو اس پر ایران کی طرح پابندیاں لگائی جاتی، فلسطینی سفیر نے کہا کہ ہمیں سفارتخانے کے لئے زمین شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے دی اور عمارت کیلئے 1 ملین ڈالر صدر زرداری نے دیئے۔

سینیٹر فیصل سبز واری نے کہاکہ فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے ،او آئی سی کا نام لیتے ہی شرم آتی ہے ،یو این صرف قراردادوں کیلئے ہی رہ گیا ہے ،فلسطین کو مدد کی ضرورت ہے ،ہمیں امن قائم کروانے کیلئے امریکہ سے ڈو مور کا مطالبہ کرنا چاہیے۔اعظم نذیر تارڑ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ فلسطین کے معاملے پر عالمی پارلیمانی فورمز کو متحرک کرنا ہوگا،روہنگیا کے معاملے پر عالمی فورمز پر مسلمانوں کے اتحاد پر نوٹس ہوا ،اسرائیل نہتے لوگوں پر بمباری کر رہا ہے ،سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ،مشترکہ قرارداد کی تیاری کیلئے کمیٹی بنائی جائے ،وزیر اعظم کو ایوان بالا میں ہونا چاہیے تھا۔

کامل علی آغا نے کہاکہ کشمیر اور فلسطین پر قراردادیں منظور ہیں لیکن ان قراردادوں کا کوئی اثر نہیں ہے،اقوام متحدہ کے اوپر جب ایسے حکمران مسلط ہیں اس وقت جہنوں نے مسلم حکمرانوں کو مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے،اب ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے ،کرنل قذافی جیسے حکمرانوں کی روح پیدا کرنا ہو گی ،عمران خان نے اس معاملے پر جو کام کیا وہ نظر آتا ہے ،عمران خان تڑپ رکھتے ہیں ،مسلمان حکمرانوں کو آگے بڑھ کر ایک تحریک چلانا ہو گی ،ایک جسم ایک جان کے نعرے کے تحت مسلمان حکمرانوں کو تحریک چلانا ہو گی۔

سینٹر مشتاق احمد نے کہاکہ جس طرح فلسطین میں ماہ رمضان میں قبلہ اول کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھ لیا ،سویلین معصوم بچوں اور فلسطین کے عوام کو بربریت کی گئی ،یہ یکطرفہ جنگ تھی جس کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے۔،امریکہ نے اس ظلم پر خاموشی اختیار کیے رکھی ،اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ اسرائیل عالم اسلام کے خلاف دہشت گردی کا اڈا ہے ،اسرائیل کے حکمرانوں کے خلاف وار کرائم کے تحت مقدمات درج کرانے کے لیے او آئی سی پلیٹ کو استعمال کرنا چاہیے ۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ وزیر اعظم نے جس طرح فلسطین کے معاملے پر کردار ادا کیا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے ،وزیر اعظم نے مسلمان حکمرانوں کو اس پر کردار ادا کرنے کا کہا ،وزیر اعظم کے اس کردار کو سرانا چاہیے ۔

انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم نے کھل کر فلسطین کے معاملے پر اپنا موقف عالمی برادری کے سامنے رکھا،وزیر اعظم عمران خان آئندہ بھی اپنے اس کردار کو کھل کر نبھائیں گے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ اسرائیل کے خلاف وار کرائم کے حوالے سے کوششیں کرنا ہونگی ،ہمیں امریکہ کو زمینی اور فضائی اڈے نہیں فراہم کرنے چاہئیں ۔ انہوںنے کہاکہ فلسطین کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن ایک بیج پر ہیں ،ہمیں اس سے بھی آگے بڑھ کر کشمیر اور فلسطین کے لیے کام کرنا ہو گا ۔

پیر صابر شاہ نے کہاکہ امت مسلمہ قراردادیں پاس کر دیتی ہے لیکن عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ،فلسطین اور کشمیر کے اوپر قراردادیں موجود ہیں لیکن صرف مسلمانوں پر ہی یہ ظلم وستم جاری ہے،ہمیں اور پوری امت مسلمہ کو مل کر کشمیر اور فلسطین کے مسلئے پر آٹھ کھڑا ہونا ہو گا