پاکستان انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں ہے،’’اڈوں کے حوالے سے‘‘خبریں بے بنیاد ہیں ،وزیر خارجہ

ہم نہ کسی ڈرون کو اجازت دینگے اور نہ کوئی امریکی اڈہ یہاں قائم ہو گا،پاکستان انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں ہے،اللہ نے فلسطین کے خلاف مظالم رکوانے میں کامیابی دی ،یہ مسئلہ کا مکمل حل نہیں ، اقوام متحدہ سلگتی چنگاری کو بجھانے اور مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے ،ہم اپنے فلسطینیوں کی انسانی حوالے سے مدد کریں گے ،پاکستان نے افغان امن عمل میں مخلصانہ کردار ادا کیا جس کو دنیا تسلیم کر رہی ہے ،ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں ، شاہ محمود قریشی کا سینٹ میں پالیسی بیان

بدھ 26 مئی 2021 00:15

اسلا م آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مئی2021ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ’’اڈوں کے حوالے سے‘‘خبریں بے بنیاد ہیں ،ہم نہ کسی ڈرون کو اجازت دینگے اور نہ کوئی امریکی اڈہ یہاں قائم ہو گا،پاکستان انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں ہے،اللہ نے فلسطین کے خلاف مظالم رکوانے میں کامیابی دی ،یہ مسئلہ کا مکمل حل نہیں ، اقوام متحدہ سلگتی چنگاری کو بجھانے اور مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے ،ہم اپنے فلسطینیوں کی انسانی حوالے سے مدد کریں گے ،پاکستان نے افغان امن عمل میں مخلصانہ کردار ادا کیا جس کو دنیا تسلیم کر رہی ہے ،ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں ۔

منگل کو سینٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ میں نئے حلف اٹھانے والے سینٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،میں اس ایوان کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اس اہم موضوع کو بحث کیلئے منتخب کیا،میں اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک گیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ ہم نے مشترکہ طور پر حکمت عملی اپنائی،میں او آئی سی، عرب لیگ اور نیم کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کے انعقاد کے مشترکہ درخواست دی،سلامتی کونسل کے چار اجلاس ہوئے لیکن بے نتیجہ رہی،میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی،صدر سلامتی کونسل نے ملاقات کے دوران بتایا کہ آخری اجلاس میں سلامتی کونسل کے 14 اراکین ایک طرف تھے جبکہ ایک رکن نے مخالفت کی،جب یہ صورت حال سامنے آئی تو ترک وزیر خارجہ نے مجھ سے رابطہ کیا،ہم نے سعودی وزیر خارجہ و دیگر وزرائے خارجہ کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ہمیں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی رجوع کرنا چاہیے،میں نے وزیر اعظم عمران خان کی خدمت میں سارے حالات عرض کیے اور انہوں نے مجھے اجازت دی،ہم نے اپنے مستقل مندوبین کی ذمہ داری لگائی کہ وہ جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کیلئے تحرک کریں،صدر جنرل اسمبلی والکن بوذکر نے جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کے انعقاد کا اعلان کیا،میں نے روانہ ہونے سے پہلے اس ایوان سے رجوع کیا،میں بطور وائس چیئرمین تحریک انصاف تمام پارلیمانی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے میرے ہاتھ مضبوط کیے اور ایک متفقہ قرارداد پیش کی،میں یہ قرارداد جنرل اسمبلی لے کر گیا اور وہاں سب شرکاء کی خدمت میں پیش کی اور بتایا کہ یہ ہماری 22 کروڑ عوام کا متفقہ فیصلہ ہے،27 رمضان المبارک کی مقدس رات، نہتے نمازیوں پر حملہ کیا گیا ان پر بمباری کی گئی ،فلسطینیوں کی جبرا بے دخلی نے اس مسئلے کو مزید ہوا دی۔

انہوںنے کہاکہ صدر جنرل اسمبلی نے نئی روایت قائم کی کہ انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اوپننگ ریمارکس دیئے اور اپنے کرب کا اظہار کیا ،میں نے اس شخصیت کو 27 مئی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی اور وہ تشریف لا رہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ انقرہ سے نیویارک تک دوران سفر میری فلسطین کے وزیر خارجہ سے زمینی حقائق جاننے کا موقع ملا،انہوں نے ان مشکلات کا ذکر کیا جو انہیں آنے میں درپیش تھیں ،میں نے فلسطین کے وزیر خارجہ کو بھی پاکستان کی دعوت دی ہے اور انہوں نے قبول کر لی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ہمارا پہلا مقصد ان مظالم کو رکوانا تھا جس میں اللہ نے ہمیں کامیابی دی لیکن یہ مسئلہ کا مکمل حل نہیں ہے ،میں نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے بھی درخواست کی کہ وہ اس سلگتی چنگاری کو بجھانے کیلئے اور مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کیلئے اپنا کردار ادا کیجئے ۔ انہونے کہاکہ سوشل میڈیا کی بدولت یہ مظالم دنیا کے سامنے جب آنا شروع ہوئے تو عوام ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ،مشیگن، لندن سمیت دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے ۔

وزیر خارجہ نے کہاکہ 27 کو یہ واقعہ ہوتا ہے اور وزیر اعظم عمران خان فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں فوراً او آئی سی سے رابطہ کرنا ہے،چنانچہ 28 تاریخ کو سیکرٹری جنرل او آئی سی کے سامنے مدعا پیش ہوا اور اور او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کا انعقاد ہوا ،میں نے اس اجلاس میں پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح موقف پیش کیا ،میں نے چھ نکات ان کے سامنے رکھے،جس میں جنگ بندی، مظالم کی تحقیقات، مواخذہ،اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کے مطالبات شامل تھے،21 تاریخ کو پوری پاکستانی قوم نے بھرپور انداز میں یوم یکجہتی فلسطین منایا ،22 کو کراچی میں بہت بڑا احتجاج ہوا ،اسرائیل کے اندر مظاہرے ہوئے جو ایک بالکل نئی صورت حال تھی ،وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے فلسطینیوں کی انسانی حوالے سے مدد کریں گے ۔

انہوںنے کہاکہ میری مصر کے وزیر خارجہ سے بات چیت ہوئی ہے مصر کے راستے ہم فلسطینی بھائیوں کو میڈیکل و دوسری معاونت بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں ،میری سیکرٹری بلنکن کے ساتھ بات ہوئی تو میں نے افغانستان کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مسئلے پر انہیں قوم کے جذبات سے آگاہ کیا ،بائیڈن انتظامیہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ 11 ستمبر تک غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکال لیں گی،ہم نے ذمہ دارانہ انخلاء کی بات کی ہے ،پاکستان نے افغان امن عمل میں مخلصانہ کردار ادا کیا جس کو آج دنیا تسلیم کر رہی ہے ،میں اپنی بہادر افواج کے جوانوں کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے،آج پاکستان کو مسائل کا موجب نہیں بلکہ مسائل کے حل کا حصہ سمجھا جا رہا ہے ،ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں کیوں کہ افغانستان میں قیام امن سے ہمارا امن وابستہ ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ہم کاسا 1000 منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تاکہ توانائی کی کمی پوری ہو سکے اور ہمیں مہنگی بجلی سے چھٹکارا مل سکے ،اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو مشرق اور مغرب کے ربط کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے ،روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے ،میں اس ایوان کے فلور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ’’اڈوں کے حوالے سے‘‘خبریں بے بنیاد ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ میں واضح کردوں کہ ہم نہ کسی ڈرون کو اجازت دیں گے اور نہ کوئی امریکی اڈہ یہاں قائم ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان انشاء اللہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ قبل ازیں فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے حوالے سے جاری بحث پر تحریک منظور کی گئی ،ڈاکٹر شہزاد وسیم نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔پختونخوا میپ کے سینیٹر شفیق ترین نے سینیٹ میں فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ،مسلم امہ فلسطین اور کشمیر میں مظالم بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

سینیٹر مصدق ملک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران فلسطین میں 232 افراد شہید ہوئے جن میں سے 65 بچے تھے،اقوام متحدہ میں ابتک فلسطین کے حوالے سے 2575 قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں،یہ مفاہمتی قراردادوں سے کچھ نہیں ہوگا،ہمیں اب کہنا ہوگا کہ بہت ہوچکا اب بس کردو۔ بی این پی مینگل کے قاسم رونجھو نے کہاکہ فلسطین کا مسئلہ مذہب نہیں انسانیت کا ہے،اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرو اسکا، ہم نے بھی صرف قراردادیں ہی پاس کی ہیں،چھوٹا سا ملک فلسطین پر قابض ہوگیا۔

انہوںنے کہاکہ کمزورمعاشی حالات کے باعث عملی اقدامات نہیں کرسکتے،ہمیشہ فلسطین کی آواز اٹھاتے رہیں گے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ فلسطین میں نمازیوں اور بچوں پر تشدد دنیا نے دیکھا،کوشش کی گئی تشدد کی کوریج روکی جائے لیکن سوشل میڈیا نے سب دکھا دیا ،مرد مجاہد عمران خان نے دنیا میں کھل کر فلسطین کے حوالے سے بات کی،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی گفتگو بھی پاکستان کے مؤقف کی عکاسی ہے،ہمیں قراردادوں سے آگے نکل کر بات کرنا ہوگی۔

سینیٹر رضاربانی نے کہاکہ کیا مسلم امہ فلسطین کے بچوں کے کفن ختم ہونے کا انتظار کررہی ہے،چوتھی مرتبہ فلسطینی عوام پر قتل عام ہورہا ہے،مجھے بارآور ہوگیا کہ اسرائیل کا قبضہ غزہ نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہے،اسرائیلی بربریت مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان میں کوشش کی جارہی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے،کچھ تھنک ٹینک اس پر آرٹیکلز لکھے گئے،تھنک ٹینک کے مطابق اگر اسرائیل کو تسلیم نہ کیا گیا تو شاید قیامت آجائے گی،تھنک ٹینک کو بتانا چاہتے ہیں، غزہ سے اسرائیلی فوج کو نکالا جائے ،پاکستانی قوم کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی ۔

رضا ربانی نے کہاکہ فوری طور پر مسلم فنڈز کا اہتمام کیا جائے ،بجلی پانی فوری بحال کرائی جائے،غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم کرایا جائے ،تمام اسرائیلی سیاحوں کو مسلم ممالک میں داخلہ بند کیا جائے اگر جنگ میں مدد نہیں کر سکتے تو بحالی میں مدد کرنا ہو گی۔مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہاکہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی واضح ہے ۔

انہوںنے کہاکہ اسلام کی تاریخ میں مسجد اقصیٰ نہایت اہمیت کی حامل ہے،پاکستان اور وزیراعظم کا فلسطین کے حوالے سے واضح مؤقف ہے کہ اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے،اسرائیل مغرب کا ایسا بچہ ہے جس کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔سنیٹر تاج نے کہاکہ پاکستان امریکہ کو ہوائی اڈے کی فراہمی پر نظر ثانی کرے ،اگر ائیر بیسز دینے کا فیصلہ ہوا ہے تو افسوسناک ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ خبر دار کرتا ہوں اس سے ملک میں انتہا پسندی کی نئی لہر آئے گی ،امریکہ وسط ایشیائی ریاستوں چین یا ایران سے اڈے لے ،لبنان ایران پر اسرائیلی حملے ہو سکتے ہیں ،ہمیں فیصلہ کرنا ہے ہمیں کہا کھڑا ہونا ہے۔