حامد میر پر پابندی، کئی حلقوں کی مذمت

DW ڈی ڈبلیو پیر 31 مئی 2021 16:20

حامد میر پر پابندی، کئی حلقوں کی مذمت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 مئی 2021ء) حامد میر پر اس پابندی کی مذمت کی جا رہی ہے، تاہم کچھ حلقے اس پابندی کو جائز بھی قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حامد میر نے اپنی شہرت کو قومی سلامتی کے اداروں پر دشنام طرازی کے لیے استعمال کیا۔

اب کسی صحافی پر حملہ نہ ہو، حامد میر کی تنبیہ

صحافت اور سیاست میں تفریق لازم ہے!

میرے خلاف الزام، مجھے خاموش کرنے کی کوشش ہے، حامد میر

واضح رہے کہ جمعہ کو صحافی اسد طور پر حملے کے خلاف ایک مظاہرہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کے باہر ہوا تھا، جہاں حامد میر نے تقریر کرتے ہوئے قومی سلامتی کے اداروں پر شدید تنقید کی تھی۔

انہوں نے کسی جنرل کا نام لیے بغیرایک ایسا انکشاف بھی کیا تھا، جس سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی بہت سخت زبان استعمال کی اور ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی ''جارحانہ لہجہ'' اختیار کیا۔

حامد میر کی تقریر کے کلپس کو سوشل میڈیا پر بہت بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا جبکہ مظاہرے کے بعد بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو دیے گئے انٹرویوز میں بھی حامد میر نے مبینہ طور پر سخت زبان استعمال کی۔

اس تمام صورتحال کے بعد جیو کی انتظامیہ نے انہیں پروگرام کیپٹل ٹاک کی میزبانی سے روک دیا ہے، جس پر ملک کے کئی حلقے چراغ پا ہیں۔

پابندی کی مذمت، جیو کو وارننگ

پابندی کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یو نین آف جرنلسٹس نے جیو کو متنبہ کیا ہے کہ اگر پابندی فوری طور اٹھائی نہیں گئی، تو پورے ملک میں جیو اور جنگ کے دفاتر کے سامنے صحافی برادری مظاہرے کرے گی۔

یونین کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں بتایا جائے کہ 72 گھنٹے میں ایسا کیا ہوا کہ جیو نے حامد میر کے پروگرام پر پابندی لگا دی۔ اس بات کا خدشہ تھا کہ جیو پر دباؤ آئے گا۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ جیونے خودپابندی لگائی یا دباؤ کے تحت لگائی گئی ہے۔ اس کی وجہ کوئی بھی ہو صحافتی برادری خاموش نہیں بیٹھے گی اور اس پابندی کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے گی۔

''

ناصر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے بل لا رہی ہے اور دوسری طرف فسطائی حربے استعمال کر رہی ہیں۔ ''ہم نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا سامنا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں اور آج بھی ہم آزادی اظہار رائے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ملک کی صحافتی برادری اس پابندی پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے تویہ ان کی بھول ہے۔''

جیوکو پابندی لگانے کا کوئی حق نہیں

مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس پابندی کی منطق پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں حامد میر کے ٹاک شوز اٹینڈ کرتا رہا ہوں اور انہیں سنتا بھی رہا ہوں میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کوئی بات ایسی بولی ہو، جو جیو کی پالیسی یا مشن اسٹیٹمنٹ کے خلاف ہو۔

تو پھر ان پر پابندی لگانے کا جواز کیا ہے۔ اگر حامد میر نے جیو سے باہر کسی اور پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بات کہی ہے، تو ملک میں آئین اور قانون موجود ہے قانون اپنا راستہ خود لے گا۔ جیو کو پابندی لگانے کی ضرورت نہیں۔''

قابل مذمت

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حامد میر پر پابندی انتہائی قابل مذمت ہے۔

''اس سے بین الاقوامی سطح پر بہت بدنامی ہوگی اور یورپی یونین کی طرف سے جو پاکستانی برآمدات کو خصوصی درجہ دیا گیا ہے وہ درجہ بھی اس طرح کی پابندیوں سے خطرے میں پڑ سکتا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلے گی اور ملک کی معیشت کو نقصان ہوگا۔ آزادی اظہار رائے کو پوری دنیا میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کی ریاست کو بھی اس کا ادراک کرنا چاہیے اور اس طرح کے فسطائی ہتھکنڈوں کواستعمال نہیں کرنا چاہیے۔

''

اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ

اسد بٹ کا مزید کہنا تھا کہ حامد میر پر پابندی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔''حامد میر نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو لوگوں کو پتا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا میں اس بات کے پہلے ہی چرچے تھے۔ اگر کوئی بات کی ہے تو وہ کسی ایک فرد واحد کو ٹارگٹ کیا ہے، اس میں پورے ادارے کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔

لہذا اس پابندی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیو نے یہ پابندی اسٹبلشمنٹ کے دباؤ میں لگائی ہے۔''

حامد میر معافی مانگیں

پاکستانی میڈیا میں قومی سلامتی کے اداروں کے دفاع میں بولنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی تعلق نہیں۔ معروف تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفی نے ڈبلیو کو بتایا، ''لیکن جو لب و لہجہ حامد میر نے اختیار کیا اور جس طرح کے سنگین الزامات لگائے، وہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔

اس طرح کے الزامات نہ صرف قومی سلامتی کے اداروں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ حامد میر سمیت کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی شہرت کو قومی سلامتی کے اداروں پر بے بنیاد الزامات لگانے کے لیے استعمال کرے۔ یہ پابندی بالکل درست ہے اور اگر حامد میر عوامی سطح پر معافی نہ مانگیں، تو ان کے پروگرام کو دوبارہ شروع نہ کیا جائے۔

''

تنقید نہیں دشنام طرازی

ان کا مزید کہنا تھا کہ حامد میر کے الزامات تنقید کی زد میں نہیں آتے۔ ''یہ تنقید نہیں بلکہ دشنام طرازی ہے۔ قومی اداروں کو بدنام کرنے کا ایک گھٹیا حربہ ہے۔ کسی بھی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اس طرح قومی سلامتی کے اداروں کو بد ام کرے اور ان پر دشنام طرازی کرے۔ یہ ہمارے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی قوم اور ملک کے لیے۔''