الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے جائزہ اجلاس کی صدارت صدر مملکت سے کرانا آئین کے مطابق نہیں، کنور دلشاد

الیکشن 2013 میں جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلاوجہ مداخلت کرتے ہوئے ریٹرننگ افسران کو خطوط لکھے ، بیان

منگل 1 جون 2021 17:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جون2021ء) سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان و چیئرمین نیشنل ڈیموکریٹک فاؤنڈیشن کنور محمد دلشاد نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر محمد عارف علوی آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کے معاملات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالے سے ایوان صدر میں جائزہ اجلاس کی صدارت نہ کریں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن سے متعلق تمام معاملات کا جائزہ لینا اور انتخابات آئین کے آرٹیکل 218، 224 اور 226 کے تحت کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اور تمام امور کا راستہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ہی گزر کر جاتا ہے۔

اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے انتخاب شماری میں حصہ لینا انتہائی حساس معاملات کے زمرے میں آتے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان شفاف انتخابات کرانے کا آئینی حق رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت اگرچہ انتخابی اصلاحات کی باریکیوں کو بخوبی جانتے ہیں اور انتخابی امور پر ان کی گہری نظر ہے الیکشن ایکٹ 2017 کی ترتیب و تدوین میں ان کا ادراک قابل تحسین رہا ہے اور ان کی تجویز پر انتخابی اصلاحات کمیٹی نے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی شق شامل کی تھی جو 25 جولائی 2018 کی رات کو فلاپ ہوگیا اور الیکشن کمیشن کی پوری انتظامیہ اس سسٹم کو بچانے میں ناکام رہی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار یاد دہانی کے باوجود کیبنٹ ڈویڑن نے آر ٹی ایس کی ناکامی پر تحقیقات کرانے میں الیکشن کمیشن کے خطوط کا جواب نہیں دیا اور نادرہ کے اس وقت کے چیئرمین نے بھی الیکشن کمیشن پر ہی ذمہ داری ڈال دی تھی لہذا حکومت اور اپوزیشن کے مابین شدید محاذ آرائی کی وجہ سے صدر مملکت معاملات سے الگ تھلگ رہے ہیں۔

کنور محمد دلشاد نے کہا کہ الیکشن 2013 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلاوجہ مداخلت کرتے ہوئے ریٹرننگ افسران کو خطوط لکھے اور اجلاس کی صدارت کی تھی جو آئین کے آرٹیکل 219 کی خلاف ورزی تھی جس پر بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں کمیشن میں بھی عمران خان نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے طریقہ کار کے خلاف دلائل دیے تھے اور میں نے بھی چیف جسٹس ناصر الملک کے کمیشن کو اپنی رپورٹ اسی نکتہ پر پیش کی تھی