منظور پشتین اپنے تین ساتھیوں سمیت گرفتار

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 4 جون 2021 18:40

منظور پشتین اپنے تین ساتھیوں سمیت گرفتار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جون 2021ء) پولیس نے منظور پشتین کو کوہاٹ کے قریب گرفتار کیا۔ گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ پی ٹی ایم کے ادریس پشتین اور بلال بھی تھے۔ گرفتاری کے بعد انہیں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی اداروں کی جانب سے ان کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

پی ٹی ایم کے رکن عبداللہ ننگیال نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے، ''منظور کو ان کے تین ساتھیوں سمیت حراست میں لیا گیا ہے۔

‘‘ تاہم انہیں یہ اندازہ نہیں کہ منظور پشتین کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا، ''منظور پشتین جانی خیل میں قتل ہونے والے محمد نصیب کے رشتہ داروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے جا رہے تھے۔

(جاری ہے)

‘‘

جانی خیل میں احتجاج کیوں؟

چھ روز قبل جانی خیل سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد نصیب کی لاش ملی تھی۔

اس بارے میں ان کے صاحبزادے اور رشتہ داروں کا دعوی ہے کہ یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے اور یہ کہ محمد نصیب کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں تھی۔ اس کے بعد محمد نصیب کے رشتہ داروں نے نعش لے کر احتجاج شروع کر دیا تھا۔

منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنما بھی اسی مظاہرے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ میڈیا کے ساتھ بات چیت میں مقتول محمد نصیب کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ''جب تک علاقے میں امن کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات کی یقین دہانی نہیں کروائی جاتی ان کا احتجاج جاری رہے گا اور اگر صوبائی حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو وہ نعش کو لے کر اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔

‘‘

جانی خیل میں یہ پہلا واقعہ نہیں

اس احتجاجی مظاہرے میں شریک قبائلی رہنما گل عالم کا کہنا تھا، ''تین ماہ قبل اسی علاقے کے چار بچوں کی نعشیں ملیں، جس پر پورے علاقے کے لوگوں نے احتجاج کیا اور ریاست سے تحفظ فراہم کرنے اور علاقے میں امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔‘‘ گل عالم کے مطابق صوبائی وزیر کامران بنگش کے اس بیان سے کہ یہ قتل ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے، جانی خیل کے لوگوں کو شدید تکلیف پہنچی ہے کیونکہ نصیب کے خاندان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی اور وہ علاقے میں قیام امن اور سماجی کاموں میں پیش پیش تھے۔

حالیہ کارروائی اور تحریری معاہدہ

اس علاقے میں نامعلوم افراد کی طرف سے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کے نواح میں واقع جانی خیل نامی اس علاقے میں رواں برس مارچ کے مہینے میں چار نوجوان علاقے میں شکار کھیلنے کے لیے نکلے لیکن واپس نہیں آئے۔ کئی روز کی تلاش کی ناکامی کے بعد ایک چرواہے کو کھیتوں سے ان کی نعشیں ملیں۔

بعدازاں مقتول نوجوانوں کے رشتہ داروں نے مقامی پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج شروع کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ علاقے میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف موثر اقدامات اٹھا کر امن قائم کیا جائے۔

احتجاج کا یہ سلسلہ آگے بڑھا تو ایک ہفتے بعد صوبائی حکومت کے منتخب نمائندوں نے قبائلی مشیران سے مذاکرات کیے، جس کے نتیجے میں مقامی قبائل نعشیں دفنانے پر رضا مند ہوئے۔

ایک تحریری معاہدے کے ذریعے علاقے میں امن کے قیام، لاپتہ افراد کی بازیابی، ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی سمیت علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے اقدامات پر اتفاق ہوا۔

اس احتجاج کو ختم کرنے اور مشیران کو مذاکرات پر راضی کرنے میں ‌صوبائی وزیر سماجی بہبود ہشام انعام اللہ خان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کا بتایا، ''تمام ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ جانی خیل سمیت صوبے بھر کے عوام کو عسکریت پسندوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔

عوام کو بھی مثبت کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ پختون دہشت گردی کے خطرناک دور سے گزرے ہیں۔ آج بدامنی کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس طرح کا ماحول کیوں بن رہا ہے؟‘‘

وفاقی وزیر داخلہ کا دورہ وزیرستان

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد شمالی اور جنوبی وزیرستان کا دو روز ہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔

اس دوران وہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے کام کا جائزہ بھی لیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا کام دو ماہ میں مکمل کیا جائے گا، جس سے امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ پاکستانی حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت مخالف عسکریت پسند افغان علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں سے آ کر پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ پاکستانی سکیورٹی اداروں پر الزام عائد کرتی ہے کہ اس خطے میں انتہاپسندی کو پروان چڑھانے میں اسلام آباد حکومت کی پالیسیوں کا مرکزی کردار ہے۔