ہم بلاامتیاز یونیورسل ویکسنیشن کیلئے کوشاں ہیں،یہ کٹھن مرحلہ ہے،ویکسین کی فراہمی کا اپنا ہدف حاصل کرلیں گے،شاہ محمود قریشی

افغان مہاجرین کی وسیع تر صورتحال اور حجم کے پیش نظر ’’وزن اور حصہ باٹنے‘‘ کی ضرورت ہے، نئی شراکت داریاں استوار ہوں گی، ہمیں قومی کوششوں میں عالمی برادری کی حوصلہ افزا حمایت میسرآئے گی، وزیر خارجہ کا تقریب سے خطاب

بدھ 9 جون 2021 17:04

ہم بلاامتیاز یونیورسل ویکسنیشن کیلئے کوشاں ہیں،یہ کٹھن مرحلہ ہے،ویکسین ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جون2021ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم بلاامتیاز یونیورسل ویکسنیشن کیلئے کوشاں ہیں،یہ کٹھن مرحلہ ہے،ویکسین کی فراہمی کا اپنا ہدف حاصل کرلیں گے،افغان مہاجرین کی وسیع تر صورتحال اور حجم کے پیش نظر ’’وزن اور حصہ باٹنے‘‘ کی ضرورت ہے، نئی شراکت داریاں استوار ہوں گی، ہمیں قومی کوششوں میں عالمی برادری کی حوصلہ افزا حمایت میسرآئے گی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ سال 2021 کیلئے پاکستان ہیومینیٹیرین ریساپنس پلان(ایچ آر پی) کے مشترکہ آغاز کی تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہوئے بڑی مسرت محسوس کررہا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ میں ایچ آر پی میں شریک تمام فریقین حکومت اور پاکستان میں اقوام متحدہ کی کنٹری ٹیم دونوں کی کوششوں کو سراہتا اور ان کا اعتراف کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ میں صف اول کے نڈر کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو وبائی یا قدرتی آفات سمیت مختلف حالات میں انسانوں کی مدد کے عمل سے منسلک ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی حکومت ہر طرح کے حالات میں بلاامتیاز ملک میں رہنے والوں کو صحت سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے پوری طرح پرعزم ہے،ہم ایسی پالیسیز تشکیل دے رہے ہیں اور ان پر عمل کررہے ہیں جن سے قدرتی آفات اور کورونا وبا کی وجہ سے درپیش مشکلات کے باوجود پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے حصول کے لئے مستحکم پیش رفت ہو سکے۔

انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت کی پالیسیوں کے دو رہنما اصول ہیں: ’’اجتماعیت‘‘ اور ’’پائیداری‘‘۔ ہم اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں کہ ہم انسانی صورتحال کے تمام پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا موثر نظام استوار کریں جو ہر طرح کے حالات میں انسانوں کی مدد کرسکے اور اس میں اجتماعی اور پائیدار بحالی کی صلاحیت بھی موجود ہو۔ انہوںنے کہاکہ یہ امر باعث مسرت ہے کہ ایچ آر پی جس کا آج ہم اجرا کررہے ہیں، ایک اجتماعیت کا حامل نظام ہے جس میں دیگر شعبہ جات کو مد نظر رکھاگیا گیا ہے انہوںنے کہاکہ ان میں صحت، تعلیم، تحفظ، فوڈ سکیورٹی ، شیلٹر، واش (پانی، سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین) اور مہاجرین کیلئے تمام پہلووں کو شامل کیاگیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ یہ رسپانس پلان، اداروں اور فریقین کے درمیان رابطے استوار کرکے خدمات عامہ کی فراہمی کے ذریعے آفات میں مقابلے، تیاری اور تحفظ کی پاکستان کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے ہے۔ انہوںنے کہاکہ ’’کوئی بھی پیچھے نہ رہے‘‘ کا بنیادی مرکز ایچ آر پی کے ذریعے واضح اور عیاں ہے، خواہ یہ معذور افراد ہوں، مہاجرین ہوں، سیاسی پناہ کے متلاشی ہوں یا پھر دیگر کمزور طبقات ہوں،اس ضمن میں، صنف (Gender) اور نوجوان طبقہ دو اہم فریقین ہیں اور عمومی طورپر ایسی کسی صورتحال میں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔

ان دونوں طبقات کا خاص طورپر اس پلان میں خیال رکھاگیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایچ آر پی کا ایک اور اہم پہلو ترقی اور موثر انسانی مدد ہے، پائیدار ترقی کے ایجنڈا 2030 کی حمایت اور ان اہداف کے حصول کی کوششوں کے لئے ہم اپنی قوم کی صلاحیت بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرسکے۔ پاکستان ایچ آر پی، پائیدار ترقی کے اہداف کے سلسلے میں عالمی تعاون کے لئے اچھا فریم ورک مہیا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت کے وژن کے مطابق مانیٹرنگ اور اکاونٹیبیلیٹی ایچ آر پی کے اہم ستون ہیں جو پراجیکٹ ایویلوایشن سے عمل درآمد تک کے مراحل پر محیط ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گذشتہ سال سے دنیا مشترکہ طور پر کورونا وبا کا سامنا کررہی ہے - سارے ترقی یافتہ ممالک کے لئے یہ محض ایک صحت عامہ کا ہنگامی مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن ترقی پزیر ممالک کے لئے یہ اپنے عوام کو بھوک اور افلاس سے بچانے کی جنگ بھی ہے۔

انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کے قرض میں رعایت کے اقدام کے ذریعے پاکستان نے اس ضمن میں کوششوں میں قائدانہ پہل کی ہے تاکہ ترقی پزیر ممالک ایک انتہائی غیرمعمولی صورتحال کا مقابلہ کرسکیں، پاکستان اس امر کا بھی مبلغ ہے کہ ویکسین مساوی اور مناسب قیمت پر سب کو دستیاب ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ قومی سطح پر ہم ایک کثیرالجہتی حکمت عملی پر کاربند ہیں جس میں توجہ صحت اور سماجی ومعاشی پہلووں پرمرکوز ہے۔

قومی اشتراک عمل کا طریقہ کار اپنایا گیا ہے جو شواہد اور سائنسی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کورونا سے نمٹنے کے لئے رہنمائی فراہم کررہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہماری کاوشوں کا مرکزی نکتہ عوام کی بہتری ہے۔ حکومت نے احساس پروگرام کے تحت ملکی تاریخ میں سب سے بڑی، نقد رقوم کی تقسیم کی سکیم شروع کی جس کے تحت 12000 روپے فی خاندان کے حساب سے ڈیڑھ کروڑ مستحق خاندانوں میں تقسیم کئے گئے تاکہ غریب عوام کورونا وبا کے نتیجے میں معاشی دباؤ کا مقابلہ کرسکیں۔

انہوںنے کہاکہ گزشتہ برس کورونا سے متعلق ’’پاکستان پری پئیرڈنس اینڈ رسپانس پلان‘‘جاری کیا گیا تھا۔ ہم ہمارے بین الاقوامی شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس پلان کی حمایت کی اور ہمارے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ اس کے ذریعے صحت اور دیگر سماجی ومعاشی اثرات میں کمی لانے میں ہمیں مددملی۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت ہم بلاامتیاز یونیورسل ویکسنیشن کیلئے کوشاں ہیں۔

یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے لیکن ہمارا عزم غیرمتزلزل ہے۔ ہم بااعتماد ہیں کہ ہم سب، ویکسین کی فراہمی کا اپنا ہدف حاصل کرلیں گے۔ انہوںنے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلی بنی نوع انسان کی بقاء کے لئے خطرہ ہے۔ پاکستان سب سے کم ترین کاربن کا اخراج کرتا ہے،انہوںنے کہاکہ ہم ماحولیاتی خطرات کاسامنا کررہے ہیں جو ہم نے پیدا نہیں کئے، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تغیر کا سب سے زیادہ شکار ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔

انہوںنے کہاکہ ماحولیاتی تغیر سے نمٹنے کی کوششوں کے تحت وزیراعظم عمران خان نے بلین ٹری سونامی منصوبے پر خیبرپختونخوا صوبے میں عمل کیا جسے عالمی طورپر بہترین ماڈل کے طورپر تسلیم کیاگیا۔ اب ہم ملک میں 10 ارب درخت لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کو ماحولیات کے عالمی دن 2021 کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا،ہم اسے ’’کلین اینڈ گرین پاکستان‘‘ کے لئے ہماری کوششوں اور اس ضمن میں ہماری ساکھ کا اعتراف سمجھتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیات سے متعلق ایک واضح ایجنڈا ہمارے سامنے ہے جس کے تحت متعدد فلیگ شپ اقدامات کئے جارہے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ عالمی عہد کے طورپر ترقی یافتہ ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کو آفات کے خطرات میں کمی اور ماحولیات کے شعبے میں خطرات کو کم کرنے کے لئے بھرپور حمایت کرنی چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ ہم زراعت، صحت، قابل تجدید ٹیکنالوجیز، متعلقہ آبادیوں کی قوت مدافعت و کاروبار کو بہتر بنانے، ادارہ جاتی استعداد کو تقویت دینے اور ہنگامی حالات کے مقابلے کے لئے شراکت داری کے خواہاں ہیں۔

انہوںنے کہاکہ افغان مہاجرین سے متعلق گفتگو سے قبل میں یو این ہائی کمشنر گرانڈی کو اس مقصد کے لئے ذاتی دلچسپی لے کر کوششیں کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ شدید معاشی اور دیگر مشکلات کے باوجود ہمارے عوام کی انسانی، فراخ دلی، گرمجوشی اور میزبانی کی اقدار کے سبب پاکستان کی جانب سے مہاجرین کی دیکھ بھال ممکن ہوئی ہے۔

جب مہاجرین ضرورت کی گھڑی میں ہمارے پاس آئے تو ہم نے اپنے دل اور گھر ان کے لئے کھول دئیے۔ انہوںنے کہاکہ کورونا وبا کے دوران ہسپتالوں، ڈاکٹروں، طبی عملے اور ادویات تک رسائی میں کوئی فرق نہیں رکھاگیا اور پورے معاشرے کے ساتھ ملا کر افغان مہاجرین کے تمام درجوں کو بھی طبی امداد اور سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا یقین ہے کہ ’’کوئی زندگی اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں‘‘ ہماری ویکسین لگانے کی مہم اجتماعی اور پورے معاشرے کے لئے ہے، اس میں پاکستانی اور غیرپاکستانی سب شامل ہیں جن میں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں۔

انہوںنے کہاکہ افغان مہاجرین کی وسیع تر صورتحال اور حجم کے پیش نظر ’’وزن اور حصہ باٹنے‘‘ کی ضرورت ہے۔ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دستیاب وسائل میں بڑھتے ہوئے خلا کو پورا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی مناسب انداز میں دیکھ بھال اور تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ ہمیں ایسے پائیدار حل تلاش کرنے ہوں گے جن کی مدد سے مہاجرین جلد اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔

انہوںنے کہاکہ ایچ آر پی، ایک ایسا ایکشن پلان ہے جو انسانی صورتحال کا بہتر انتظام فراہم کرسکتا ہے اور اس کے ذریعے پائیدار ترقی کے 2030 کے ایجنڈا کو بھی حاصل کیاجاسکتا ہے اس سے موجودہ شراکت داریوں کو تقویت ملے گی، نئی شراکت داریاں استوار ہوں گی، ہمیں قومی کوششوں میں عالمی برادری کی حوصلہ افزا حمایت میسرآئے گی۔ انہوں نے کہاکہ میں ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر جناب جولئین ہارنیس اوران کی ٹیم خاص طورپر انسانی حقوق کے لئے کورآرڈینیشن کیلئے قائم دفترکو بھی سراہتا ہوں جنہوں نے جامع ریسپانس پلان وضع کرنے میں حکومت پاکستان کے ساتھ قریبی اشتراک عمل رکھا، میں آپ سب شرکاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔