لندن سے الگ ہوئے پانچ سال گذر گئے مگر اب تک کراچی کو اس کا حق نہیں مل رہا ہے،ڈاکٹرفاروق ستار

چار ہزار ارب روپے کا ٹیکس دیتے ہیں تو ڈیڑھ فیصد خیرات ملتی ہے،شہر کیلئے 400ارب روپے مختص کیے جائیں ،سربراہ تنظیم بحالی ایم کیو ایم فور منصوبہ جلد مکمل ا نہ ہوا تو پانی کی کمی پر فسادات شروع ہوجائینگے،بجٹ کے حوالے سے ہم نے اپنی تجاویز ارسال کردی ہیں،پریس کانفرنس

جمعرات 10 جون 2021 23:39

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جون2021ء) سربراہ تنظیم بحالی ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستارنے کہا ہے کہ ہمیں لندن سے الگ ہوئے پانچ سال گذر گئے مگر اب تک کراچی کو اس کا حق نہیں مل رہا ہے ۔چار ہزار ارب روپے کا ٹیکس دیتے ہیں تو ڈیڑھ فیصد خیرات ملتی ہے۔بجٹ میں کراچی کو کم از کم تین سے چار سو ارب روپے ملنے چاہئیں ۔کے فور منصوبہ جلد مکمل ا نہ ہوا تو پانی کی کمی پر فسادات شروع ہوجائیں گے۔

بجٹ کے حوالے سے ہم نے اپنی تجاویز وزیر اعظم، وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر اعلی کو ارسال کی ہیں۔ہم ہی ملک سے غربت بے روزگاری کے خاتمے کا فارمولا رکھتے ہیں۔وہ جمعرات کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ڈاکٹرفاروق ستار نے کہا کہ ماہجون میں وفاقی اور صوبائی بجٹ کا اعلان ہوتا ہے اور وہ منظور ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایم۔کیو ایم کی روایت رہی کہ شیڈو بجٹ پیش کرتی ہے۔

ہم نے آج بھی شیڈو بجٹ کی طرز پر تجاویز تیار کی ہیں۔ہم نے اپنی تجاویز وزیر اعظم، وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر اعلی کو ارسال کی ہیں۔ہمارا ان تجاویز کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے پاس مسائل کا حل ہے۔ہم ہی ملک سے غربت بے روزگاری کے خاتمے کا فارمولا رکھتے ہیں۔ملک کے ترقی کے عمل میں ایک عام پاکستانی کیسے حصے دار بن سکتا ہے، یہ فارمولا ہمارے پاس ہے۔

ہماری تجاویز متبادل نسخہ ہیں ۔مفادات کا لین دین کرکے ہر سال بجٹ پاس کرالیا جاتا ہے۔پاکستان کے عوام ہر سال جون کے مہینے میں تماشہ دیکھتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ ہم نے اپنا فریضہ سمجھ کر شہری سندھ کی طرف سے یہ متبادل شیڈو بجٹ اور تجاویز پیش کی ہیں۔ہم۔چراغ کی لو بجھنے نہیں دیں گے، اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔معیشت کی جڑوں میں بیٹھے امراض کو نکالنے کی تجاویز دے رہے ہیں۔

ابھی نہیں تو کبھی نہیں والی صورتحال ہے، لوگ بیزارہوچکے ہیں۔ستر سال سے بڑے بڑے معاشی اہداف لے کر عوام کو اس میں الجھا دیا ہے۔مائیکرو اکانومی کا تعلق عام آدمی سے ہے، اس کا ذکر نہیں ہوتا۔انہوںنے کہا کہ شیڈو بجٹ میں ہم نے چار پانچ بنیادی اقدام ہم نے تجویز کئے ہیں۔غربت اس وقت بدترین سطح پر ہے ۔مڈل کلاس پاکستانی پر ٹیکسوں کا بوجھ کم۔

کرنا اور یوٹیلیٹی سروسز کو بہتر کرنا چاہیے ۔بجلی تیل گیس کی۔قیمتوں کو کم کرنا پاکستان کے غریبوں کو موقع دینے کے مترادف ہے۔پچھلے برس بھی سولہ۔سترہ سو ارب رکھے گئے تھے۔اس بار دو ہزار ارب روپے ترقیاتی فنڈز رکھے جارہے ہیں۔حکومتی عیاشیوں میں یہ پیسہ خرچ ہوجاتا ہے۔یہ معیشت پچھلے سال کی طرح اب بھی کورونا زدہ ہے۔کورونا کے مگر مچھوں سے بچاکر ہمیں اپنی معیشت کو کنارے پہنچانا ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری کو فی الفور کم کرنا ہوگا۔مراعات یافتہ طبقے پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنا ہوگا۔سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ فیصد سے کم کرکے نوفیصد کرنا ہوگا۔اگر یہ جوا ہے تو قوم کی خودمختاری کے لئے جوا کھیلنا ہوگا۔انکم ٹیکس کی حد کو تنخواہ دار طبقے پر کم کرنا ہوگا۔ڈاکٹر فاروق ستارنے کہا کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لئے قانون سازی ہوتی، بجٹ بنتے ہیں۔

پاکستان گھٹنوں پر معیشت زمین پر لیٹ گئی ہے۔گورکھ دھندا ہے کہ چار فیصد گروتھ ریٹ ہے ۔اپوزیشن کی بات درست ہے گروتھ ریٹ ڈھائی سے تین فیصد سے زیادہ نہیں۔تعلیم صحت پانی بجلی نکاسی آب اور دیگر بنیادی ضروریات ہیں۔ان بنیادی ضروریات پر کم از کم پانچ فیصد حصہ مختص کرنا ہوگا۔ہنر سکھانے والے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا قیام اہم ضرورت ہے۔

بے نظیر انکم۔سپورٹ پروگرام کو تبدیل کرکے انوسٹمنٹ پروگرام میں تبدیل ہونا چاہیے ۔بارہ ہزار ماہانہ پر خاندانوں کو محتاج بنارکھا ہے۔روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے پروگرام ترتیب دینا ہوں گے۔ہم اپنی بہن بیٹیوں کو احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ری ڈیزائن کرکے بااختیار بنا سکتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ نوجوانوں کو قرضے دئیے جائیں انہیں سیکھانے کے مواقع دینا ہوں گے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ روکنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔پی آئی اے اسٹیل مل میں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا ہے۔تین سال سے حکومت تبدیلی کے نعرے لگا رہی ہے مگر پی آئی اے مزید بدحالی کا شکار ہیلاک ڈاون کی بلاوجہ کی سختیوں نے چھوٹی صنعتوں کو تباہ کردیا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستارنے کہا کہ چھوٹی صنعتوں کو بارہ سو ارب روپے کا پیکج ملنا چاہیے ۔

تعلیمی اداروں کو بھی سبسڈی ملنی چاہیے ۔گروتھ ریٹ پانچ سے چھ فیصد ہونا چاہیے ۔اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی کرنی چاہیے ۔ہائوسنگ انڈسٹریز کو ملنے والی مراعات کا اطلاق کراچی اور سندھ میںہونا چاہیے ۔ایس بی سی اے کے کرپٹ افسران کی وجہ سے مراعات کا فائدہ نہیں ہورہا ۔پیٹرولیممصنوعات پر پر دس فیصد غنڈہ ٹیکس ماضی میں بھی تھا اب بھی ہے۔

انہوںنے کہا کہ بحریہ ٹائون جیسے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔اوورسیز پاکستانیوں کی املاک اور سرمائے کو تحفظ دیناہوگا۔بحریہ ٹائون واقعے کو مثال بنانا چاہیے ۔حکومت کو نقصان کا ازالہ کرنا چاہیے ۔کراچی کا بھٹہ بٹھایا جارہا ہے۔ہملندن سے الگ ہوگئے پانچ چھ سال سے مگر کراچی کو اس کا حق نہیں ملا ۔اس ہی طرح خیرات پر گذارا ہے سر اٹھانے نہیں دیا جارہا ہے۔

کم از کم تین سے چار سو ارب روپے کراچی کو ملنے چاہئیں۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اندیشہ ہے کہ پانی پر فسادات لسانی۔فسادات کی صورت اختیار کرجائیں گے۔حیدر آباد میں انسٹیٹیوٹ بنانے کے لالی پاپ دئیے جارہے ہیں۔میرے بھائی خاموشی سے بیٹھے ہیں اور اسلام آباد کی تیاری کررہے ہیں۔اپنے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ کلکے فور سرکلر ریلوے اور حیدر آباد کی یونیورسٹیاں لے آو