کورونا وائرس کا ووہان لیب سے لیک ہونا ثابت ہوبھی گیا تو بڑی خبر نہیں ہوگی

دنیا کے مختلف ممالک میں لیباٹریوں میں تجربات کے دوران ایسے حادثات پیش آتے رہے ہیں‘کروڑوں انسانوں کی جانیں لینے والے سپینش فلو کا وائرس سازش کے تحت پھیلایا گیا تھا.تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 12 جون 2021 11:13

کورونا وائرس کا ووہان لیب سے لیک ہونا ثابت ہوبھی گیا تو بڑی خبر نہیں ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون ۔21 20ء) امریکا اور چین کے درمیان کورونا وائرس کے آغازکی تحقیقات کو لے کر تنازع ملکوں کو مختلف کیمپوں میں تقسیم کررہا ہے کچھ ممالک امریکی نظریات کے حامی اور کچھ چین کے جبکہ ایک گروہ غیرجانبدار ممالک کا بھی ہے تاہم اگر یہ ثابت ہوبھی جاتا ہے کہ کووڈ19وائرس ووہان لیب سے حادثاتی طور پر لیک ہوا تو یہ دنیا میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہوگا بلکہ ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں.

امریکی جریدے” وال سٹریٹ جرنل“ نے ایک امریکی لیبارٹری کے حوالے سے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ چین کی ووہان لیب سے کورونا وائرس کے لیک ہونے کا نظریہ قابل یقین ہے اور اس پر مزید تحقیق ہونی چاہیے. امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں مئی 2020 میں تیار ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ اس وقت امریکی محکمہ خارجہ کے استعمال میں تھی، جب ٹرمپ انتظامیہ کی میعاد کے آخری مہینوں میں محکمہ عالمی وبا کی شروعات کی وجوہات پر تفتیش کر رہا تھا رپورٹ کے مطابق لارنس لیورمور لیبارٹری کے پاس حیاتیاتی معاملات پر گہرا تجربہ ہے اور رپورٹ میں سارز وائرس کی اس قسم کے جینوم پر تجزیہ کر کے، جس سے کووڈ 19 کی بیماری لاحق ہوتی ہے یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے.

کسی لیبارٹری سے وائرس کے لیک ہونے کے بعد عوام میں پھیلنے اور وبا کا باعث بننے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی دنیا بھر میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جن میں جان لیوا وائرس لیبارٹری سے لیک ہونے کے بعد بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا سبب بنے جہاں عالمی ادارہ صحت کی کامیاب کوششوں کی وجہ سے پچھلی صدی میں چیچک کے مرض کا مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا، وہیں برطانیہ میں متعدد بار یہ بیماری لیبارٹری میں وائرس پر تحقیق کے دوران بے احتیاطی کی وجہ سے پھیلی.

ورکنگ گروپ آن کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل ویپنز سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفریشن کے لیے ایک سائنسدان ڈاکٹر مارٹن فرمانسکی نے اپنے مقالے ”لیبارٹری اسکیپس اینڈ سیلف فلفلنگ پرافیسی ایپی ڈیمکس میں کہا ہے کہ جہاں 1963 سے 1978 تک اس بیماری کے چند ہی واقعات رونما ہوئے، وہیں ان واقعات پر تحقیق کے بعد جو لیبارٹری میں مہلک جراثیموں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جو حفاظتی قواعد و ضوابط اختیار کئے گئے وہ آج تک رائج ہیں.

1918 کے سپینش فلو کو کون نہیں جانتا اس فلو میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے لیکن ”بزنس ان سائڈر“ کی ایک رپورٹ کے مطابق H1N1 کی ایک قسم کے 1977 میں ایک چینی لیبارٹری سے لیک ہونے کے نتیجے میں دنیا بھر میں وبا پھیلنے سے لاکھوں انسان ہلاک ہو گئے تھے ڈاکٹر مارٹن فرمانسکی کے مطابق ابتدا میں اس پرانے وائرس کے دوبارہ نمودار ہونے پر ماہرین کو انتہائی تشویش کے ساتھ شدید حیرانگی بھی ہوئی مغربی سائنس دانوں نے شروع میں لیبارٹری سے اس وائرس کے لیک ہونے کے سوال پر خاموشی اختیار کی اس کی وجہ ابتدا میں سائنسی شواہد کا نہ ہونا اور روسی اور چینی سائنس دانوں کا اس سلسلے میں باقی دنیا کے ساتھ تعاون بھی شامل تھا جس سے وبا پر قابو پانے میں مدد ملی.

تاہم 30 برسوں کی سائنسی تحقیق کے بعد اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ وائرس قدرتی طور پر نہیں پھیلا اور اس کے جینوم پر تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ 1950 کے عشرے میں لیبارٹری میں فریز کیے ہوئے وائرس کے لیک ہو جانے سے یہ وبا دنیا بھر میں پھیلی وی ای ای مچھروں سے پھیلنے والی ایک بیماری ہے جو گھوڑوں کو لاحق ہوتی ہے اس بیماری سے گھوڑے شدید بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعصاب بھی متاثر ہوتے ہیں جس سے 83 فیصد تک گھوڑے ہلاک ہو جاتے ہیں بزنس ان سائڈر کے مطابق 1995 میں وینزویلا کی ایک لیبارٹری سے لیک ہونے والے وی ای ای کی ایک قسم سے وینزویلا اور کولمبیا میں ہزاروں لوگ اس بیماری کا شکار ہوئے اور تین سو کے لگ بھگ ہلاکتیں ہوئیں جب کہ تین ہزار سے زائد افراد اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے.

2003 میں سارز کی وبا سے 29 ممالک میں 774 افراد ہلاک ہوئے۔

(جاری ہے)

اخبار نیشنل پوسٹ کے مطابق ان میں سے 21 فیصد کا تعلق ہسپتال کے عملے سے تھا جن ہسپتالوں میں یہ وبا پھیلی تھی انہیں بند کرنا پڑا کیونکہ یہ وہا سانس کے ذریعے پھیلتی ہے اور اس کی ویکسین بھی نہیں ہے ڈاکٹر مارٹن نے اپنے مقالے میں لکھا کہ سارز کے 5 فیصد مریض ”سپر سپریڈر“ یعنی تیزی سے مرض دوسرے افراد کو منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں اور ایک مریض مزید 8 افراد کو یہ بیماری منتقل کر سکتا ہے.

انہوں نے اپنے مقالے میں ایسے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں یہ وائرس لیبارٹری میں متاثر ہونے والے ریسرچرز کی وجہ سے پھیلابزنس ان سائڈر کے مطابق ابتدائی واقعہ کے بعد سے یہ وائرس چھ بار لیب سے لیک ہو چکا ہے ان میں سے چار مرتبہ یہ بیجنگ میں لیک ہوا جب کہ ایک بار سنگاپور اور ایک بار تائیوان میں اس کے لیک ہونے کے واقعات پیش آئے. ایف ایم ڈی کی بیماری جانوروں کو متاثر کرتی ہے اور یہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے نیشنل پوسٹ کے مطابق 2001 میں برطانیہ میں اس بیماری سے ایک کروڑ جانوروں کو تلف کرنا پڑا جس سے ملک کو 16 ارب پاو¿نڈ کا نقصان ہوا 2007 میں اعلیٰ ترین سیکیورٹی کی حامل ایک لیبارٹری سے محض 4 کلومیٹر فاصلے پر مویشیوں کے ایک فارم میں کئی جانوروں میں یہ بیماری پھیل گئی۔ جس کے نتیجے میں فوری طور پر ہزاروں جانوروں کو تلف کرنا پڑا اور برطانیہ کو برآمدات میں 20 کروڑ پاﺅنڈ کا نقصان اٹھانا پڑا.

لیبارٹری سے لیک کے باعث وبا پھیلنے کے علاوہ اور بھی ایسے بہت سے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو وائرس کی منتقلی کا سبب بنتے ہیں ان میں لیبارٹری میں انجینئیرنگ کے شعبے کی ناکامی یا حفاظتی مشینوں میں خرابی کا پیدا ہونا شامل ہے امریکہ میں اس وقت 66 جراثیموں اور مہلک نامیاتی زہروں پر 300 کے قریب لیبارٹریوں میں تحقیقی کام کیا جا رہا ہے جن میں پلیگ اور اینتھیرکس پر تحقیق شامل ہے مہلک جراثیموں پر تحقیق کا مقصد جہاں ان کا علاج اور ویکسین تیار کرنا ہے، وہیں نئے طریقوں سے زیادہ ہلاکت خیز جراثیم تیار کرنا بھی اس کا حصہ ہوتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ جنگلوں اور بیابانوں میں یہ جراثیم کس طرح ارتقا کا عمل جاری رکھتے ہیں اور ان کا علاج پہلے سے ڈھونڈ لیا جائے.

امریکہ کے وبائی امراض کے کنٹرول اور اس کی روک تھام کے ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کا”سیلیکٹ ایجنٹ اینڈ ٹاکسن پروگرام“یعنی منتخب جراثیموں اور زہروں کے پروگرام میں یہ لازمی ہے کہ چوری، ضیاع یا روزمرہ کے کام کے دوران محققین کا جراثیموں سے اگر براہ راست واسطہ پڑ جائے یا حفاظتی جگہوں سے باہر کسی جراثیم کے پھیلنے کا کوئی واقعہ رونما ہو تو اس کی فوری طور پر رپورٹ کی جائے 2005 سے 2012 کے دوران سی ڈی سی کو ایسی 1059 رپورٹس ملی جن میں اس محفوظ ترین سمجھی جانی والی لیباٹری میں ایسے حادثات رونما ہوئے.