Live Updates

وفاقی بجٹ:عام شہری کے مسائل میں اضافہ ہوگا یا ریلیف کا کوئی امکان ہے؟

مالی خسارے اور شرخ نمو میں اضافے کے اہداف عالمی مالیاتی اداروں سے کیئے وعدوں سے کم ہیں لہذا حکومت کو یوٹیلٹی ‘پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کرنا پڑے گا .ایڈیٹر ”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم کی بجٹ2021-22پر تجزیاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 12 جون 2021 11:50

وفاقی بجٹ:عام شہری کے مسائل میں اضافہ ہوگا یا ریلیف کا کوئی امکان ہے؟
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون ۔21 20ء) وفاقی بجٹ مالی سال 2021-22ماضی کے ہر الفاظ کی طرح محض الفاظ کا کورکھ دھندا ہے بجٹ میں عام جن چیزوں میں ریلیف کی توقع کررہا تھا حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے دباﺅ کی وجہ سے اسے وہ نہیں دے سکتی یعنی بجلی‘گیس‘تیل‘اشیاءخوردونوش میں کمی اب چونکہ حکومتوں کو ان ڈیائریکٹ ٹیکسوں کی مد میںسب سے زیادہ محصولات ان چیزوں سے حاصل ہوتے ہیں تو اس کا کوئی امکان نہیں کہ موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے کوئی بھی حکومت ان چیزوں کی قیمتوں میں کمی کرئے گی.

بجٹ میں 866 ارب روپے اضافی آمدنی سے حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی جوکہ ایف بی آر کے ذریعے حاصل کی جائے گی جس میں سے 727 ارب روپے بلاواسطہ ٹیکسز بنیادی طور پر سیلز ٹیکس سے ملے گا. ٹیکسز کے علاوہ پٹرولیم لیوی سے 160 ارب روپے جمع ہوں گے گزشتہ برس مجموعی بیرونی قرضوں کا بجٹ 810 ارب روپے تھا اور آخر تک 13 کھرب روپے کی ضرورت تھی اگلے مالی سال میں یہ ضرورت کتنے ہزار فیصد بڑھے گی کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ انتخابات کے قریب جاکر حکومتوں کے ”ترقیاتی بجٹ“ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے جس کا بوجھ براہ راست عام شہریوں پر آتا ہے.

پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرنا آسان ہوتا ہے تاہم وعدوں پر قائم رہنا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے اصل چیلنج ہوگا بجٹ میں بزنس کمیونٹی کو خوش کرنا پہلی ترجیح تھی، مشکلات کے باوجود ٹیکس اور ڈیوٹیز میں وسیع پیمانے پر کمی کی گئی. اس کے علاوہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے بھی اجرت میں اضافہ کیا گیا اور کم از کم اجرت میں تقریباً 20 فیصد اضافہ کیا گیا جوکہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے کیونکہ ہمارے کوئی ادارہ موجود نہیں جو آجر کو مجبور کرسکے کہ وہ مزدور کے حقوق پورے کرئے اور اس کو اعلان کردہ کم سے کم اجرت کی ادائیگی کرئے جو ادارے موجود بھی ہیں وہ آجروں سے ماہانہ ”نذارنے“وصول کرکے سب اچھا ہے کی رپورٹ سرکار کو ارسال کردیتے ہیں اس کے علاوہ اس قدرمہنگائی میں20ہزار روپے میں دو افراد پر مشتمل کنبے کا گزر بسر بھی ممکن نہیں.

اسی طرح تنخوا دار طبقے کے لیے 10 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ مہنگائی میں کئی سوفیصد اضافہ ہوچکا ہے تاہم دفاعی اخراجات میں بھی 6 فیصد اضافہ کیا گیا اس میں سے 18 فیصد اضافہ موجودہ اخراجات پر ہے یا 11 کھرب 8 ارب روپے سویلین ہیڈز میں جائیں گے گو کہ دفاعی ڈویژن کے اخراجات ترقیاتی بجٹ میں تین گنا ہوچکے ہیں جو بڑھ کر تقریباً 20 کھرب روپے ہوچکے ہیں جو کہ گزشتہ سال کے 208 ارب روپے کے بجٹ سے سبسڈیز بھی تین گنا ہوچکی ہیں (رواں برس اصل اخراجات 430 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں) جب کہ آئندہ مالی سال کے لیے 682 ارب روپے کا پروگرام رکھا ہے، جس میں سے 87 فیصد صرف پاور سیکٹر کے لیے ہے، یہ وہ شعبہ ہے جس کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کی سبسڈیز میں کمی کرے گی.

عوام سے یہ وعدے کرنے کے بعد حکومت کو اب قرض دہندگان خاص کر آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے چیلنج کا سامنا ہوگا تاہم لگتا یہی ہے کہ ماضی کی طرح یہ حکومت بھی عوام کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر آئی ایم ایف کی جانب سے دیئے گئے ٹاسک کو پورا کرنے پر عمل پیرا رہے گی. بجٹ میں آئندہ سال کے لیے بیرونی وسائل کی ضروریات بڑھ کر 500 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے، اس میں سے زیادہ تر بیرونی قرضوں سے حاصل ہوگا جس کا تخمینہ 12 کھرب روپے بازادائیگیوں کے بعد کا لگایا گیا ہے گزشتہ برس مجموعی بیرونی قرضوں کا بجٹ 810 ارب روپے تھا اور آخر تک 13 کھرب روپے کی ضرورت تھی.

اب زیادہ انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ اپنے بجٹ کی حدود میں رہیں گے یا نہیں اس کے علاوہ بجٹ میں 866 ارب روپے اضافی ایف بی آر آمدنی سے حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی، جس میں سے 727 ارب روپے بلاواسطہ ٹیکسز بنیادی طور پر سیلز ٹیکس سے ملے گا ٹیکسز کے علاوہ پٹرولیم لیوی سے 160 ارب روپے جمع ہوں گے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ وفاقی وسائل میں صوبائی حصہ دو گنا سے زیادہ تخمینہ لگایا گیا جو کہ 242 ارب روپے گزشتہ برس تھا وہ آئندہ برس 570 ارب روپے کا تخمینہ ہے.

ٹیکس کٹوتی اور بڑھتے سرکاری اخراجات سے حکومت نے ترقی کی راہ پر مزید گامزن رہنے کی تیاری کی ہے اب ضرورت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو مطمئن کیا جائے کہ یہ اخراجات ضروری ہیں اور ان کے پاس جامع منصوبہ ہے جو اس مقصد کے تحت وسائل کو متحرک کرے گا آئندہ سال کے لیے مالی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 6.3 فیصد رکھا گیا ہے، جو کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے 5.1 فیصد کے وعدے سے زیادہ ہے.

آئندہ برس کے لیے نمو کا تخمینہ 11 کھرب روپے لگایا گیا ہے ان دونوں تخمینوں میں خسارے کا فرق 541 ارب روپے ہے جو کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے مجموعی آمدنی کا ہدف 134 ارب روپے کم ہے جس کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا آئی ایم ایف سب سے پہلے دو چیزوں سے متعلق پوچھے گا اور شاید آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے شوکت ترین کا انتخاب کیا گیا ہے. یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ وسائل کی ضروریات کے حوالے سے یہ بجٹ ترقی میں اضافے کا باعث ہوگا یا حکومتی 4.8 فیصد کے ہدف سے بھی زیادہ ہوجائے گا۔ لیکن بیرونی معاونت اور ترسیلات کے بغیر یہ ممکنہ طور پر حکومت کے لیے دباﺅبڑھائے گا کہ وہ پٹرولیم، گیس اور بجلی پر ٹیکس اور لیویز عائد کرکے تیزی سے آمدنی بڑھائے، جس سے ترقی کی رفتار تھم سکتی ہے.

بجٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مقامی قرضے عارضی سے مستقل قرضوں کی طرف منتقل ہورہے ہیں لیکن یہ بھی چیلنجنگ ہوگا اگر شرح سود طویل عرصے تک منفی رہی معیشت کی ترقی کی رفتار جاری رہے گی اور ممکن ہے کہ اس میں اضافہ ہو. بجٹ میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ حکومت نے یہ بڑا جوا کھیلا ہے ہے کہ ترقی سے اپنی ادائیگی میں مدد ملے گی ان سے قبل بھی یہی امید لگائی گئی تھی لیکن ان کی امید قابل عمل نہیں ہوئی، یا کم از کم طویل مدت تک قائم نہیں رہی اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس مرتبہ یہ کیسے کام کرتا ہے.
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات