بھارت؛ ہندو انتہاپسند جماعتیں فیس بک کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلارہی ہیں

ہفتہ 12 جون 2021 16:59

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جون2021ء) بھارت میں ہندو انتہاپسند جماعتیں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف نفرت آمیز مواد کو فروغ دینے کے لئے فیس بک پر منظم انداز میں مہم چلارہی ہیں۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مشہور امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ لیب کے مطابق ہندو جنجاگرتی سمیتی (ایچ جے ایس)، سناتن سنستھا(ایس ایس)کی ذیلی تنظیم ہے جو بھارت میں قائم ایک بین الاقوامی متشدد اور دائیں بازو کی مذہبی قوم پرست جماعت ہے۔

ڈیجیٹل فارنزک لیب دنیا بھر میں جھوٹ اور غلط معلومات کا پھیلائوروکنے پر کام کرتی ہے۔ڈی ایف آر لیب کے مطابق اس گروپ نے فیس بک پر کم از کم 46 پیجز اور 75 گروپوں پر مشتمل ایک نیٹ ورک تیار کیا ہے جس کا مقصد بھارت کی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے بیانیے کا فروغ ہے۔

(جاری ہے)

تنظیم نی98لاکھ فیس بک صارفین کی ممکنہ تعداد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کی مذہبی اقلیتوں کو بدظن کرنے کے لئے تحریری پوسٹس ، پیشہ ورانہ طور پر ترمیم شدہ گرافکس اور دائیں بازو اور ریاست سے وابستہ ذرائع ابلاغ کے ویڈیو تراشے شائع کیے ہیں اور بھارت کی اکثریتی ہندوبرادری میں اقلیتوں کے حوالے سے خوف اور غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق اس وقت تک 46 فیس بک پیجز میں سے 35 کو فیس بک کے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ تمام 75 گروپس ا بھی تک سرگرم عمل ہیں۔ہندو جنجاگرتی سمیتی اور سناتن سنستھا مذہبی قوم پرست تنظیمیں ہیں جو جدید بھارتی ریاست کی سیکولر نوعیت اور اس کے آئین کو ہندو راشٹر یا مذہبی قوم پرست ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔مارچ 2020 میں ڈی ایف آر لیب نے فیس بک پر دائیں بازو کے پیجز کے نیٹ ورک کا انکشاف کیا جس میں بھارت میں ہندو ، عیسائی اور مسلم برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی اور پورے ملک میں جنسی تشدد کے متنازعہ واقعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

ریاستی اور مقامی پولیس اس سے قبل ان دونوں گروہوں کے خلاف مختلف کیسز میں تفتیش کر چکی ہے۔ جن میں 2007 سے لے کر 2009 کے دوران ان پرمقامی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ 2013 اور 2015 کے درمیان نریندر ڈابھولکر سمیت ممتاز دانشوروں اور صحافیوں گووند پانسارے ، ایم ایم کالبری اور گوری لنکیش کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی الزام ہے۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق دسمبر 2020 میں وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ HJS کا نام دائیں بازو کے گروپوں ایس ایس ، شری رام سینا اور بجرنگ دل کے ساتھ شامل تھا جن کے خلاف فیس بک خطرناک افراد اور تنظیموں کے بارے میں پلیٹ فارم کی پالیسی کی ممکنہ خلاف ورزی کرنے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

فیس بک پلیٹ فارم پر اس نیٹ ورک کی آن لائن سرگرمیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ڈی ایف آرلیب نے فیس بک کے زیر ملکیت ایک سوشل میڈیاتجزیاتی ٹول، کراوڈ ٹینگل کا استعمال کرتے ہوئے جنوری 2019 سے اپریل 2021 تک دو برس کے دوران نیٹ ورک میں تمام پیجزکی سرگرمی کا تجزیہ کیا۔ ریسرچ سے انکشاف ہوا کہ 46 فیس بک پیجزکے نیٹ ورک پر جانچے جانے والے ٹائم فریم پر 9,622,477 سے زیادہ انٹرایکشنز دیکھے گئے ہیں جن کی اوسط فی صفحہ 209,000 انٹرایکشنزبنتی ہے۔

تجزیے کے وقت اس نیٹ ورک کے پاس 2,623,475 اکاونٹس کے مشترکہ یوزرز تک رسائی حاصل تھی۔HJS اپنے فیس بک پیجز کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر ملک کی اقلیتی مذہبی برادریوں کے ارکان کے لئے پرتشدد یا جنسی جرائم کے واقعات پیش کرتا ہے۔ فیس بک پیجز کا نیٹ ورک HJS اور SS کے مشترکہ پروگراموں کو نشر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ گروپ گستاخانہ خاکوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں گرافک امیجری ، نسلی منافرت ، غلط تشریحی زبان اور دیگر قسم کے مکروہ مواد شامل ہیں۔ ان پوسٹوں میں اکثر مذہبی اقلیتوں ،مقامی میڈیا اور دائیں بازو کی سیاست پر عوامی تنقید کرنے والی سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔