بلوچستان سے دریافت ہونے والا 6 ہزار سال پرانا تعویز

DW ڈی ڈبلیو اتوار 13 جون 2021 13:40

بلوچستان سے دریافت ہونے والا 6 ہزار سال پرانا تعویز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2021ء) بلوچستان سنگلاخ پہاڑوں، ریتیلے میدانوں اور خوبصورت وادیوں کی سر زمین ہے، جو برطانوی راج سے بین الاقوامی محققین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ 1974ء میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جاریج نے سبی اور ملحقہ علاقوں میں کھدائی کے دوران ایک قدیم تہذیب کے آثار دریافت کیے تھے، جسے ''مہر گڑھ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

1984ء میں جاریج کو یہاں سے پہیے کی شکل کا 2 سینٹی میٹر قطر کا ایک تعویز ملا، جو تقریبا دو عشروں تک دنیا کی نظر سے پوشیدہ رہا۔ دنیا کو اس کے بارے میں نومبر 2016ء میں میتھیو تھاؤرے اور ان کی ٹیم کے شائع ہونے والے مقالے کے ذریعے ہی معلوم ہو سکا کہ یہ لوسٹ ویکس کاسٹ کی تکنیک سے تیار شدہ دنیا کی قدیم ترین شے ہے۔

(جاری ہے)

تعویز کی خصوصیات کیا ہیں ؟

مہر گڑھ سے دریافت ہونے والا پہیے کی شکل کا یہ تعویز 2 ملی میٹر قطر کے ایک رنگ پر بنا ہوا ہے، جس کے ساتھ بہت چھوٹے چھوٹے 6 راڈز منسلک ہیں، جو ایک خاص مقام پر آپس میں مل کر تعویز کے درمیانی حصے کو سہارا دیتے ہیں۔

مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ تعویز جس تکنیک سے بنایا گیا اسے دور جدید میں لوسٹ ویکس کاسٹ یا انویسمینٹ کاسٹنگ کہا جاتا ہے۔ موم سے سانچہ بنانے کا یہ طریقہ زمانہ قدیم سے زیورات، آلات، گھریلو استعمال کی اشیاء وغیرہ بنانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور آج بھی ناسا جیسے ادارے خلا میں بھیجے جانے والے آلات اسی طرح تیار کر رہے ہیں۔

لوسٹ ویکس کاسٹ کی تکنیک کیا ہے؟

2016ء میں نیچر کمیونیکشن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مصنف فرانسیسی ماہر طبیعات و آثار قدیمہ میتھیو تھاؤرے بتاتے ہیں کہ اس تکنیک کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ جو شے تیار کرنی ہو تو ہو بہو اس جیسا مٹی کا ایک برتن بنا کر پگھلی ہوئی موم اس میں ڈالی جاتی ہے۔ اس کے بعد برتن کو آگ پر پکایا جاتا ہے، یہاں تک کے موم پگھل جائے اور برتن ٹھوس شکل اختیار کر لے۔

اس کے بعد پگھلی ہوئی موم دوبارہ برتن میں ڈال کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور پھر برتن کو احتیاط سے توڑ کر سانچے کو الگ کر لیا جاتا ہے۔ یہ مومی سانچہ دھاتی اشیاء تیار کرنے کے لیے ایک بہترین ماڈل ہوتا ہے۔

یہ تکنیک آج کے جدید دور میں بھی زیر استعمال ہے۔ کچھ تجدیدِ نو کے ساتھ مرکری (عطارد) کے مدار میں بھیجے جانے والی سپیس کرافٹ 'میسنجر‘ کے بہت سے حصے اسی طرح تیار کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ یہ سپیس کرافٹ 2011ء سے 2015 ء تک عطارد کے گرد مدار میں گردش کرتی رہی۔ بین الاقوامی خلائی مرکز کو اپ ڈیٹ کے لیے بھیجے جانے والے بہت سے آلات بھی اسی طرح تیار کیے گئے ہیں۔

تعویز پر کس طرح تحقیق کی گئی؟

میتھیو تھاؤرے قدیم اشیاء پر تحقیق سے متعلق یورپیئن سینٹر سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک بہت چھوٹا پوشیدہ ڈھانچا دریافت کیا تھا، جس پر تحقیق کے لیے تیز روشنی کی شعاعوں والی فوٹو لیومی سینس کی تکنیک استعمال کی گئی۔

ان کے بقول جب انتہائی طاقتور روشنی کی شعائیں تعویز پر ڈالی گئیں تو الیکٹرانز، جن سے تعویز بنا تھا روشنی خارج کرنے لگے۔ اس روشنی کے طیف یا سپیکٹرم (سات رنگوں کی پٹی ) کا تجزیہ کر کے تھاؤرے نے جو معلومات حاصل کیں وہ حیران کن تھیں۔ تعویز کے اندرونی حصے میں کاپر آکسائیڈ کے لا تعداد چمکتے ہوئے پتلے راڈز تھے، جو صرف مائیکرو سکوپ سے نظر آ سکتے تھے۔

تھاؤرے بتاتے ہیں کہ اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ اس دور کے ماہرین دراصل خالص تانبے سے اسے بنانا چاہتے تھے مگر تیاری کے دوران کچھ آکسیجن شامل ہونے سے کاپر آکسائیڈ تعویز کے مرکزی حصے میں راڈز کی صورت میں جمع ہو گئی۔ اسی باعث یہ ہزاروں سال تک زنگ لگنے سے محفوظ رہا۔

یہ تعویز اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟

میتھیو تھاؤرے بتاتے ہیں کہ مہر گڑھ کی تہذیب جہاں سے انہیں 36 برس قبل یہ تعویز ملا تھا، اسے نئی ایجادات کا مرکز مانا جاتا ہے۔

ان کے کاریگر اپنے کام میں انتہائی ماہر تھے، جس کا ایک ثبوت 6 ہزار سال قدیم یہ تعویز بھی ہے۔ ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ کم آبادی والے زراعت پیشہ یہ لوگ وادی سندھ کی قدیم ترین تہذیب کے پیش رو تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قدیم دور میں بھی لوگ نظرِبد سے بچنے کے لیے آج کل کی طرح چھوٹے زیورات پہنا کرتے تھے۔

مہر گڑھ تہذیب و تمدن کا مرکز

فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ فرانسوا جاریج کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سبی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں تقریبا 10 سے 11 ہزار سال قبل آبادی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

ان شہروں میں عمارتوں کا جامع نظام تھا اور لوگ پیچیدہ ڈیزائن کے گھر بنانے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ علاقہ اہم تجارتی مرکز بھی تھا کیونکہ یہاں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ ان آثار قدیمہ سے اب تک 32 ہزار نمونے دریافت ہو چکے ہیں۔

جاریج کے مطابق مہر گڑھ، اریحا (فلسطین)، بسطہ اور ابیضا (اردن) اور چاتا لہوریک (ترکی) کی طرح قدیم زمانے میں باقاعدہ شہر ہونے کی تینوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔

یہاں آبادی 1 ہزار سے زیادہ تھی اور یہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ مگر متذکرہ بالا تینوں شہروں کی طرح اس علاقے پر بھرپور تحقیق نہیں کی گئی۔ 1970ء سے 2015ء تک فرانسیسی اور دیگر غیر ملکی ماہرین آثار قدیمہ یہاں تحقیق کرتے رہے ہیں مگر پاکستان کے ماہرینِ نے انتہائی اہمیت کے حامل اس علاقے کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے۔

اگر ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ مہر گڑھ کی اہمیت کو بین الاقوامی سطح پر منوایا جائے اور مرکزی و صوبائی حکومت اس جانب بھر پور توجہ دے تو نا صرف بلوچستان کے یہ علاقے سیاحت کا مرکز بن سکتے ہیں بلکہ تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز سے یہاں کے لوگوں کو روزگار کے ساتھ تعلیم و صحت کی سہولیات بھی دستیاب ہو جائیں گی۔

ماہریں کے بقول انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ کسی دور میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہنے والا بلوچستان آج انتہائی پسماندگی کا شکار ہے اور تاریخی اہمیت کے حامل یہ آثار حادثات زمانہ کی نظر ہو کر تباہ ہو رہے ہیں۔