یوسف رضا گیلانی نے حکومت سے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق اپنا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کردیا

ہم نے جنوبی پنجاب کا نام لیا تھا، ہمیں کہا گیا آپ مخلص نہیں تھے،اگر میری دو تہائی اکثریت ہوتی تو جنوبی پنجاب کا صوبہ بن چکا ہوتا، سابق وزیر اعظم آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہیں گے، مذاکرات بھی ہوں گے، معیشت آگے لے کر چلیں گے، اگلے سال کا ہدف 4.8 ہے ،حکومت بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کریگی، شہزاد وسیم لاکھ روپے تک عام آدمی آسان شرائط پر قرض لے سکتا ہے، حکومت تین لاکھ روپے سبسڈی دے گی، 5800ارب روپے محصولات کا ہدف رکھا گیا وہ بھی حاصل ہو گا، خطاب

پیر 14 جون 2021 21:16

یوسف رضا گیلانی نے حکومت سے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق اپنا وعدہ پورا ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جون2021ء) سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے حکومت سے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق اپنا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے جنوبی پنجاب کا نام لیا تھا، ہمیں کہا گیا آپ مخلص نہیں تھے،اگر میری دو تہائی اکثریت ہوتی تو جنوبی پنجاب کا صوبہ بن چکا ہوتا۔

سینیٹ اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت کے اقدامات گنوائے اور کہاکہ ہم نے اپنے دور میں خیبر پختونخوا کو شناخت دی، ان کو ان کا نام دیا، گلگت بلتستان کو با اختیار بنانے کیلئے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت دی۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم نے جنوبی پنجاب کا نام لیا تھا، ہمیں کہا گیا آپ مخلص نہیں تھے،ہم نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے متعلق پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی۔

(جاری ہے)

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اگر میری دو تہائی اکثریت ہوتی تو جنوبی پنجاب کا صوبہ بن چکا ہوتا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ کیا تھا، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا نہیں۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جنوبی پنجاب محاذ کو کہا تھا کہ صوبہ بنائیں گے، حکومت اس حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرے۔انہوںنے کہاکہ سرکاری ملازمین کے دھرنے پر آنسو گیس گنز کی ٹیسٹنگ کی، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ ہم نے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین کو بحال کیا۔انہوں نے کہاکہ مجھ پر بطور اسپیکر قومی اسمبلی الزام تھا کہ میں نے نوکریاں دیں، میں نے کہا تھا کہ اگر نوکری دینا جرم ہے تو یہ جرم بار بار کروں گا۔یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ شرح نمو سے متعلق آئی ایم ایف، سٹیٹ بینک اور حکومت کے اعداد و شمار میں فرق ہے، آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مطالبہ کیاجو ناقابل قبول ہے، گردشی قرضہ کا بڑھتا بوجھ قومی خزانہ برداشت نہیں کر سکتا، حکومت کو اداروں کی ری سٹرکچرنگ پر بہت پہلے کام کرنا چاہیے تھا، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق عوام کو اعتماد میں لیا جائے، مہنگائی سے غریب آدمی متاثر ہوتا ہے، کورونا کے باعث لوگوں کی آمدنی کم ہوئی ہے، پی ایس ڈی پی کے تحت چاروں صوبوں کو مساوی حق ملنا چاہیے، کسی بھی صوبہ کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں، پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئیسینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ مشکل حالات میں عوام دوست اور متوازن بجٹ پیش کرنے پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں، یہ عوام دوست بجٹ ہے، عوام کی ترقی کا محور ہے، قوموں کے لئے اہم ہوتا ہے کہ ان کی لیڈر شپ درست فیصلہ کرے تاکہ معیشت درست سمت میں گامزن ہو۔ انہوں نے کہا کہ 2008میں شرح نمو 6 سے 7 فیصد تھی، معیشت درست سمت میں گامزن تھی، پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھا، 2008سے 2018میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی ایم ایف سے پروگرام لئے، عمران خان آگے بڑھ کر ملک کو درست سمت میں لے جا رہے ہیں، آئی ایم ایف کے پاس جانا مشکل فیصلہ تھا، ہمیں نمائشی معیشت وراثت میں ملی تھی، دنیا میں ہونے والی معاشی تبدیلیوں کا اثر ہوتا ہے، کورونا عالمی وبانے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، بڑی بڑی معیشتیں بیٹھ گئیں، پاکستان کی لیڈر شپ نے قائدانہ کردار ادا کیا، مشکل فیصلے کر کے قوم کو مشکل سے نکالا، انسانی جانوں اور روزگار کو بچانا تھا اور ہم نے یہ بھی کر کے دکھایا، ماضی میں صحت کے شعبہ کو نظر انداز کیا، فرنٹ لائن ورکرز اور ڈاکٹرز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، این سی او سی نے پالیسی سازی، فیصلہ سازی اور جامع حکمت عملی میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ غریب صرف ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں، اس کی بات کرنی چاہیے، 1800 ارب کا ریلیف پیکج دیا گیا، غریبوں کا روزگار بچایا گیا، کورونا وباکی تین لہروں کا سامنا کیا، بھارت نے معیشت اور کورونا کے محاذ پر شکست کھائی، ہم نے معیشت اور کورونا کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باعث صنعت کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، برآمدات کو فروغ ملا، کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوا، لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہوا، ریکارڈ ترسیلات زر پاکستان میں آئیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کی معیشت اور سیاست کا پتہ ہے، ان کو پتہ ہے کہ کس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل کر رہے گا، وہ صرف ترسیلات زر نہیں بھیجیں گے بلکہ پاکستان کی سیاست کا اٹوٹ انگ بنیں گے، کورونا اور عالمی کساد بازاری سمیت تمام چیلنجز کے باوجود 4 فیصد گروتھ کر کے دکھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہیں گے، مذاکرات بھی ہوں گے، معیشت آگے لے کر چلیں گے، اگلے سال کا ہدف 4.8 ہے اور اس سے اگلے سال شرح نمو 6 سے 7 فیصد تک لے جائیں گے، یہ خالی نعرے نہیں عملی اقدامات کر رہے ہیں جس کی دنیا معترف ہے، اس بجٹ کی سمت اور اس کا محور نچلے طبقے کے خاندان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غریب طبقات کو براہ راست فائدہ دیا جا رہا ہے، گھر بنیادی ضرورت ہے جس کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں، 20 لاکھ روپے تک عام آدمی آسان شرائط پر قرض لے سکتا ہے، حکومت تین لاکھ روپے سبسڈی دے گی، 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو کرایہ دینا ہے اسی کرائے کی قسط دے کر گھر کا مالک بن جائے گا، پہلے عام آدمی بینکوں میں جانے سے گھبراتا تھا، ماضی میں فیک اکائونٹس، فارن اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے قصے ہیں، نوجوانوں کو 5 لاکھ تک بلا سود قرضہ فراہم کیا جا رہا ہے، خیبرپختونخوا میں سب کو صحت کارڈ مل چکے، پنجاب میں سب کو صحت کارڈ فراہم کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں زرعی آمدن کے نام پر اپنی آمدنی چھپائی گئی، موجودہ بجٹ میں ہر فصل کی بوائی پر ڈیڑھ لاکھ اور مشینری کے لئے دو لاکھ قرض آسان شرائط پر ملے گا، زرعی شعبہ میں اصلاحات کی جا رہی ہیں، یہ صوبائی معاملہ ہے، وفاقی حکومت ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی، آئی ٹی شعبہ نے بہترین کارکردگی دکھائی، 10 ماہ میں 40 فیصد گروتھ ہوئی ہے، آئی ٹی کو صنعت کا درجہ دیا جا رہا ہے، نوجوان اثاثہ ہیں، نوجوانوں کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت ہائی ٹیک کے ساتھ ساتھ روایتی ہنر سکھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں آئی پی پیز سے بجلی کے مہنگے معاہدے کئے گئے، گردشی قرضہ مرحلہ وار ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کو واضح بتا دیا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کریں گے، ملک میں سستی بجلی پیدا کرنا ناگزیر ہے، ماضی میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم پر توجہ نہیں دی گئی، صنعت اور زراعت کے لئے بجلی اور پانی ناگزیر ہے، اس کے لئے ڈیموں پر کام کرنا ضروری ہے، مہمند ڈیم، دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پر کام جاری ہے، میرٹ کی پامالی اور سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں سے مسائل پیدا ہوئے جس سے ادارے تباہ ہوئے، نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں گے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ اور کم سے کم اجرت 20 ہزار رکھی گئی ہے، تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں، صوبوں کا بجٹ بڑھا کر 900 ارب کیا گیا ہے، مضبوط وفاق پر یقین رکھتے ہیں، ایف بی آر کے ہراساں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، 4 ہزار ارب سے زائد محصولات اکٹھے کئے، آئندہ سال کے لئے 5800ارب روپے محصولات کا ہدف رکھا گیا وہ بھی حاصل ہو گا۔