ٹک ٹاک کے استعمال کے خلاف ایک اور فتوٰی جاری کر دیا گیا

ٹک ٹاک ویڈیو میں جان دار کی تصویر کشی اور ویڈیو سازی ہوتی ہے جو فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ اور شرعاََ قطعی حرام ہے۔ جامعہ بنوری ٹاون

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 15 جون 2021 11:36

ٹک ٹاک کے استعمال کے خلاف ایک اور فتوٰی جاری کر دیا گیا
لاہور (اُردو پوائنٹ،اخبار تازہ ترین، 15جون 2021)   جامعہ بنوری ٹاون نے بھی ٹک ٹا ک کا استعمال حرام قرار دے دیا۔ کراچی کے جامعہ بنوری ٹاون کی جانب سے بھی ٹک ٹاک کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے۔جامعہ بنوری ٹاؤن کا ٹک ٹاک کے استعمال کے حوالے سے ایک فتویٰ سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ دور حاضر میں ٹک ٹاک سوشل میڈیا کا انتہائی خطرناک فتنہ ہے اور شرعی نقطہ نظر سے اس ایپ کا استعمال قطعی حرام ہے۔

مذکوہ فتوے میں مزید بیان کیا گیا کہ اس میں جان دار کی تصویر کشی اور ویڈیو سازی ہوتی ہے جو فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ اور شرعاََ قطعی حرام ہے۔یہاں واضح رہے کہ مذکورہ موبائل ایپ پاکستان میں کئی مرتبہ بلاک بھی کی جا چکی ہے۔ ٹک ٹاک پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی موبائل ایپ ہے، جبکہ اسنیک ویڈیو نے بھی حال ہی میں مقبولیت حاصل کی ہے۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ گذشتہ روز جامعہ اشرفیہ کی جانب سے 2 مشہور ترین موبائل ایپس ٹک ٹاک اور اسنیک ویڈیو کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔جامعہ اشرفیہ سے تعلق رکھنے والے مفتی زکریا نے گندی اور بے ہودہ ویڈیو ایمان کے خاتمے کا باعث ہیں۔ مفتی زکریا کی جانب سے ٹاک ٹاک اور اسنیک ویڈیو کو بے ہودگی پھیلانے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ان موبائل ایپس کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک اور اسنیک ویڈیو ایپ کی گندی اور بیہودہ ویڈیوز ایمان ختم کرنے والی چیزیں ہیں لہذا ان ایپلی کیشنز کو استعمال کرتے ہوئے ویڈیوز بنانا اور انہیں آگے بھیجنا بھی حرام ہے۔ چونکہ ان موبائل ایپس کے ذریعے بے حیائی پھیلائی جاتی ہے اور پھر اس بے حیائی کی تشہیر بھی جاتی ہے، لہذا ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ مفتی زکریا نے اس حوالے سے مزید کہا ہے کہ مذکورہ موبائل ایپس کا مثبت یا منفی دونوں لحاظ سے استعمال حرام ہے۔

مفتی صاحب کی رائے میں ہمارے نوجوان عموماً غلط اور صحیح کے استعمال میں محتاط نہیں ہوتے اس لیے کئی مرتبہ جائز کام کو بھی ناجائز اس لیے تصور کیا جاتا ہے کہ تھوڑی سے چھوٹ ملنے پر لوگوں کے ناجائز عمل اختیار کرلینے کا امکان ہوتا ہے، ایسی صورت کو مد نظر رکھتے ہوئے دین کی رو سے کسی جائز کام کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔