کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جون2021ء)
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما و رکن
صوبائی اسمبلی فردوس شمیم نقوی ، پارلیمانی لیڈر سندھ
اسمبلی بلال احمد غفار، رکن سندھ
اسمبلی ڈاکٹر سنجے گنگوانی سمیت دیگر اراکین نے سندھ
اسمبلی میں شیڈو
بجٹ پیش کردیا اس موقع پر مرکزی رہنما و رکن سندھ
اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ پی پی کو اقتدار کے 13 سال مکمل ہوچکے ہیں 2007 میں
قائم علی شاہ کا پیش کردہ
بجٹ کے ہداف کا موازنہ آج کے
بجٹ سے کیا جائے تو کیا تبدیلی آئی ہے اسے دیکھنا ضروری ہے
قائم علی شاہ نے کہا تھا کہ پیلے اسکولوں کو پرائیویٹ اسکولوں کے برابر لایا جائیگا دوسرا انہوں نے کہا تھا ہم اداروں میں آئی ٹی کا نظام لائیں گے میرے
سندھ کی مہران دھرتی
پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا ہے کے پی مشہور منصوبے پر تنقید کی جاتی تھی مگر آج اس کے ثمرات
پشاور میں نظر آتے ہیں بالائی علاقوں میں سڑکیں نہیں تھیں مگر آج سڑکیں نظر آتی ہیں کے پی سیاحت کو فروغ دیا آج سب اس کا اعتراف کرتے ہیں
سندھ کے ساحلوں پر ایک بھی سیاحتی مقام نظر نہیں آتا اور
سندھ کی ٹوریزم انڈسٹری کا برا حال واضح نظر آتا ہے ناران میں ٹواسٹار
ہوٹل کی تعداد 200 سے زیادہ ہے
پنجاب نے بے تحاشہ ٹورزم کے اسپارٹ بنائے اور ساتھ ساتھ انڈسٹریل زون بنائے
پنجاب کی ترقی کا پہیہ
سندھ کے مقابلے میں بہت تیز ہے انہوں نے مزید کہا کہ
سندھ میں ترقی نہ ہونے کی وجہ
بلدیاتی نظام کی کمزوری ہے آرٹیکل 140 اے کو اس کی روح کے اعتبار سے عملدرآمد نہیں کیا جارہا ، مرتضی وہاب صاحب، سعید غنی صاحب ، ناصر حسین شاہ صاحب اور مراد علی شاہ صاحب کہچکے ہیں کہ
سندھ لوکل باڈی آرڈننس 2007 کو تبدیل کرکے نیا قانون لایا جائیگا
پاکستان تحریک انصاف اور
ایم کیو ایم نے اپنا اپنا مجوزہ دیا ہوا ہے لیکن آج بھی
اسمبلی میں کوئی نیا قانون نہیں لایا گیا این
ایف سی کو
سندھ حکومت نے ائینی تحافظ تو دیا مگر 2007 سے لیکر 2021 تک پی
ایف سی کے معاملے پر کوئی کام نہیں کیا
سندھ حکومت ایک پیسہ بھی پی
ایف سی میں نہیں ڈال رہے پی
ایف سی کا فائدہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ کو یہ معلوم ہوگا کہ اسے کتنا فنڈ خرچ کرنے کیلئے دیا گیا ہے کل
پنجاب نے ڈسٹرکٹ وائس
بجٹ کا اعلان کیا
سندھ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ صلاحیت کے فقدان کا ہے
سندھ حکومت یہ شکایت تو کرتی ہے کہ جو رقم کا وعدہ ہوا اسے پورا نہیں کیا گیا اور ہم شکایت یہ کرتے ہیں کہ جو پیسہ ملتا ہے وہ پورا خرچ نہیں ہوتا
کراچی کی 18 اسکیموں میں سے 12 اسکیموں پر ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا ، صفائی پروجیکٹ پر وعدہ کیا تھا کہ
کراچی کو ماڈل گاربیج اسٹیشن بناکر دیں گے جو بنے نہیں بڑے زوروشور سے کہا گیا تھا کہ ریڈ لائن کا آغاز ہوجائیگا جو نہیں ہوا سیوریج کے ایس تھری کے منصوبے پر ایک قطرہ
پانی ٹرٹ ہوکر سمندر میں ڈلتا سوفیصد را سیوریج ڈالی جاتی ہے
سندھ کا بیوروکریٹ اور ٹیکنوکریٹ کے پاس پیسہ خرچ کرنے کی اہلیت نہیں ہے
سندھ کے تمام محکموں سرکاری افسر مجبور لوگوں کے ساتھ لین دین کررہے ہیں
سندھ میں کوئی ٹریکنگ سسٹم نہیں ہیشہر میں آدھے سے زیادہ
ڈرائیور سے پاس لائسنس نہیں ہیں ایس بی سی اے میں 60 فیصد سے زیادہ بلڈنگ بغیر اپرول کے بن رہی ہیں
سندھ میں پبلک اکانٹس کمیٹی غیر فعال ہے 13 سال کی رپورٹس پیش نہیں کی گئیں ریونیو کلیکشن کا معاملہ مکموقہ کا معاملہ ہے
سندھ میں ایگریکلچر اور پراپرٹی ٹیکس ہدف سے کم جمع کیا جارہا ہے
کراچی کی بندرگاہوں کے اطراف کوئی نیا انڈسٹریل زون نہیں بنایا گیا موئن جودڑو کی سڑکیں سائٹ کی سڑکوں سے بہت بہتر ہیں ہم
سندھ حکومت میں ہوتے تو پی
ایف سی کا اجرا کرتے ایک مضبوط لوکل باڈی کانظام قائم کرتے اور میریٹ کی بنیاد پر لوگوں کیلئے ملازمتوں کی تشخیص کرتے واٹربورڈمیں 14 ہزار جبکہ گنجائش 4 ہزار ملازمین کی ہے کے ڈی ایمیں 7 ہزار جبکہ گنجائش ہزار ملازمین کی ہیسرکار کا پیسہ گھوسٹ ملازمین کیلئے نہیں ہے ہم سمجھتے ہیں
پاکستان کا سب سے بڑا ثاثہ ہماری آبادی ہے ہم اسے واجبات بھی بناسکتے ہیں اور اپنا اثاثہ بھی ، 13 سالوں میں
سندھ کے عوام کی نشونما کم ہوئی ہے یہ ایک دھبہ ہے اس کا تدارک کرنا لازمی ہے اور ماں اور بچے میں نشونما کی کمی کا 48 فیصد کو کم کیا جائے، دوسری اہم چیز
تعلیم ہے پرائمری اسکولوں کی تعداد 38 ہزار ہے جبکہ سیکنڈری 4 ہزار سے بھی کم ہے
سندھ کے
غریب عوام کو سرکاری اسکول چاہیے کوئی ایجوکیشن ایمر جنسی نہیں ہے اور مقابلہ دوسرے صوبوں سے کیا جاتا ہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں
سندھ کو مثالی صوبہ بنانا ہے جس کیلئے میڈیا مساجد سرکاری افسر اسکولوں میں تین شفٹ بھی لگانی ہوئیں تو اس میں انویسٹمنٹ کریں گے صوبے
سندھ کی خاص بات یہ ہے کہ اس صوبے کے لوگ بہت بڑا دل رکھتے ہیں کووڈ کے دوران بزنس کمیونٹی اور آبادی دونوں کو عام لوگوں کے بھی مشکور ہیں کہ جس چرح ان لوگوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کی مدد کی اس صوبے کے عوام نے بھوک اور افلاس کو نہیں دیکھا لاکھوں کروڑوں راشن بانٹے گئے الحمداللہ پاکستانی قوم نے اس وبا کا بہترین مقابلہ کیا ہے ہم بحریہ ٹان نوری آباد کو ڈویلپ کرکے انڈسٹریل زون بنائیں گے اور وہاں ہم انڈسٹری کو زمین دیں گے جس کی رقم قسطوں میں 5 سال میں ادا کی جائیگی ہم کسٹم کوریڈور بنائیں گے دھابیجی ذولفقارآباد ٹھٹھہ سجاول میں قائم کیے جائیں گے یہ علاقے پورٹ سے قریب ہیں اور ان علاقوں میں لیبر موجود ہے جب تک پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر نہیں ہوتا تب تک شہریوں کو کسی بھی جگہ رہنے میں آسانی نہیں ہوگی ہم گورنمنٹ واجبات کو فکس کرنا چاہتے ہیں ہم پینشن کے نظام کو پرائیورٹائز کرنا چاہتے ہیں پارکنگ کا نظام کی باقائدہ نیلامی کی جاتی ہے جو رقم زیادہ دیتا ہے اسے ٹھیکہ دیدیا جاتا ہے ہم یہ تمام ٹھیکے تبدیل کرنا چاہتے ہیں پارکنگ میں ٹھیکہ ہزاروں کا ہوتا ہے کمائی لاکھوں کی ہوتی ہے اور ہم پراپرٹی ٹیکس کے نظام کو کمپیوٹرائز کریں گے جس سے کاسٹ 4 سے 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی اس سے ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھیں گے انہوں نے کہا کہ 3 سال پہلے وعدہ کیا گیا تھا کہ
سندھ کا ماسٹرپلین بنایا جائیگا اج تک وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہم
ملازمت بڑھانے کیلئے
سندھ میں جتنی نئی صنعتیں لگائی جایئگی اس پر تما م ٹیکس کی چھوٹ دی جائیگی نئے ٹرانسپورٹر سے موٹر وہیکل ٹیکس اور روٹ پرمٹ نہیں لیں گے خواتین کو معیشت کا حصہ بنانا ایک اہم کام ہے خواتین کے معاشی طور پر طاقتور ہونے سے بہت سے معاشی مسائل کو حل ہوسکتے ہیں میرے صوبے کی عورت مجبور ہے اس کی سب سے بڑی مجبور ی اس کے پاس آمدنی کا نہ ہونا ہے ایوان میں مزاق بنایا گیا تھا جب کپتان نے مرغی اور بکری کی بات کی تھی اور اج
سندھ حکومت اسی منصوبے کو لیکر چل رہی ہے یہ منصوبہ غربت کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے ہم اسیتیزی سے پھیلائیں گے ہم ہر ڈسٹرکٹ میں خواتین کیلئے وکیشنل انسٹیٹیوٹ بنارہے ہیں جس میں انہیں ایسے وسائل دیئے جائیں گے جس سے وہ گھر بیٹھے اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں گی جسے کاٹیج انڈسٹری کہا جاتا ہے اس میں سویٹر بننے اور سلائی مشینیں بھی شامل ہوتی ہیں خواتین اس کا حصہ بن سکتی ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے میں پکے مکانوں کی کمی ہے
سندھ میں نوابشاہ اور
کراچی میں ایک ڈویلپر کو اختیارات دیے گئے جو زمینوں پر نقشے خود پاس کرتا ہے لیز خود کرتا ہے پراپرٹی کی ریجسٹریشن خود کرتا ہے اور اس نے ایک منصوبہ ایسا بنایا جسے ریاست میں ریاست کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا
سندھ حکومت اس ماڈل کو بہترین منصوبہ قرار دیتی آئی ہے تو ہم یہ ماڈل ہر اس بلڈر کو دینے کیلیے تیار ہیں جوکہ 500 ایکڑ سے زیادہ کی زمین کو ڈویلپ کرے اور مکان بنائے یہ کسی ایک ڈویلپر کیلیے نہیں ہونا چاہیے جو صوبے کا ایک طاقتور آدمی ہو ، فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ روٹی کپڑا مکان کا وعدہ 1970 میں ہواتھا 50 سال سے صوبے کیعوام کو چھت نہیں ملی سیاحتی شعبے کو بھی ٹیکس کی چھوٹ دی جائیگی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئیانڈسٹرلیسٹ کو ٹریننگ دیں گے چائنا نے اس کام کو بہترین انداز میں سرانجام دیا ہم پوری مدد لیتے ہوئے اس منصوبے پر کام کریں گیبغیر سرکاری مشنری کے شیڈو
بجٹ اور اس کے اعداد بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا ، پارلیمانی لیڈر سندھ
اسمبلی بلال غفار نے کہا کہ صوبے
سندھ کا تخمینہ 1444 ارب لگایا گیا ہے وفاق نے 26 فیصد کی گروتھ کی ہے اس صوبے میں بہت صلاحیت ہے
سندھ حکومت 10 فیصد بھی ریونیو جمع نہیں کرسکتی ہم نے حکومت کو چلانے کے اخراجات میں کمی کی ہے ہم 904 ارب پر اخراجات کو لیکر گئے گھوسٹ ایمپلائز کا اداروں سے خاتمہ کریں گے سرکاری ملازم کی سروس کو نمایا کریں گے پی
ایف سی کے نظام پر عملدرآمد کروائیں گے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو بااختیار کیا جائگا رقم کی منتقلی نچلی سطح تک کی جائیگی مجموعی 460 ارب
بجٹ ہے، 448ارب ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی مجموعی
بجٹ ہی40 فیصد ڈسٹرکٹ اور 60 فیصد حکومت خرچ کرے گی مراد علی شاہ کو تکلیف ہے کہ
وزیراعظم یوسی میں کام کروارہے ہیں ۔
(جاری ہے)
یہ کام تیرا سال سے نہیں ہوئے، حکومت ڈائرکٹر ٹیکس کو امپروو کرے گی کروڑوں روپے کے گھروں میں رہنے والے چند سو کا ٹیکس دے رہے ہیں یہ ناقابلِ برداشت ہے
سندھ حکومت اپنا ٹیکس کلیکشن کا نظام بہتر کرلے
سندھ حکومت کو اپنی نیت صحیح کرنے کی ضرورت ہے وفاق نے تاریخی ٹیکس جمع کیا تمام عالمی ادارے وفاق کے اقدامات کو سراہ رہے ہیں 14 سالوں میں پی پی کی حکومت نے ٹیکس کلیکشن پر کوئی کام نہیں کیا میں امید کرتا ہوں آج مراد علی شاہ پی
ایف سی کا اعلان کریں گے۔