گورنراور وزیر اعلی ہاوس کے اخراجات میں ریکارڈ اضافہ غربت ظلم و نا انصافیوں کے مارے عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے، حسین محنتی

سندھ کا پورا بجٹ کرپشن کی دیمک لگا ہوا ہے،ڈاکوراج کے خاتمے ،پانی بحران کے حل اورتھرمیں بچوں کی اموات کوروکنے کے لیے کوئی انقلابی اقدامات نہیں کئے

بدھ 16 جون 2021 23:51

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جون2021ء) جماعت اسلامی سندھ کے امیر و سابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے کہا ہے کہ سندھ کے پورے بجٹ کو کرپشن کا دیمک لگا ہوا ہے۔ جس کی بیشتر رقم ترقیارتی پروجیکٹ کے بجائے سرکاری افسران اور ٹھیکہ داروں کے جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ بجٹ کا بہت بڑا حصہ تنخواہوں، مراعات اور غیر ترقیاتی اخراجات کے نظر ہوجاتا ہے۔

اس سال بھی اس مد میں 10 فیصد سے ذیادہ رقم کا اضافہ ہوا ہے جبکہ ترقیاتی اخراجات حکومتی غفلت و نا اہلی اور کرپشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سندھ ایسا بدنصیب صوبہ ہے جس میں وزیر داخلہ تو ایک طرف وزیر خزانہ بھی نہیں ہے اور صوبہ کی پوری مالیات بیورو کریسی کے ہاتھ میں ہے جو کہ کرپشن کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات اضافی خرچ جبکہ ترقیاتی بجٹ پچاس فیصد رقم بھی استعمال نہیں کی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

محکمہ سیاحت کو ترقی دینے کیلئے کوئی اسکیم نہیں رکھی گئی ہے حتی کہ گورکھ ہل کو سندھ کا مری بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی مکمل سڑک کیلئے بھی کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ دوسری جانب گورنر ہاو س اور وزیر اعلی ہاو س کے اخراجات میں ریکارڈ اضافہ غربت ظلم و نا انصافیوں کے مارے عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ سندھ میں ڈاکو راج کے خاتمے کیلئے پولیس کو بہتر عملی تربیت، کارکردگی اور وسائل فراہمی کیلئے بجٹ میں کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

تھر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ حکومت سندھ نے بجٹ میں اس کے سدباب کیلئے کوئی اسکیم اور نہ ہی بجٹ میں کوئی رقم رکھی ہے۔ تھر میں آر او پلانٹ پر 15 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود تھر کے عوام کو صاف پانی نہیں مل سکا۔ اسی طرح کراچی، سکھر حیدرآباد اور جیکب آباد کے عوام اس دور جدید میں صاف پانی سے محروم اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سمیت دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔

اس کیلئے بھی بجٹ میں کوئی قابل ذکر اسکیم نہیں بنائی گئی۔ صاف پانی زندگی جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ سندھ کے بجٹ میں پانی بحران کے خاتمے اور نہروں کو پکا کرنے کیلئے بھی کوئی خاطر کواہ رقم اور پانی کو اسٹور کرنے کیلئے کوئی اسکیم نہیں بنائی گئی ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے کاشتکار سخت پریشان اور نہروں کو پکا نہ کرنے کی وجہ سے پانی ضائع ہوتا ہے۔

پانی ذخیرہ کرنے کیلئے چھوٹے ڈیم بنانے کی کوئی اسکیم نہیں بنائی گئی۔ سندھ کے ہسپتالوں کی حالت بہت خراب ہے اندرون سندھ میں مناسب سہولت نہیں ہے۔NICVD کی طرح صوبہ کے تمام سول و دیگر ہسپتالوں کو بھی بہتر بنایا جائے۔ صحت کے بجٹ میں اضافہ تو ہوا ہے مگر اس کی انتظامی صورتحال کو بھی بہتر بنانے کیلئے کوئی مو ثر تدابیر کے بغیر حالات جوں کے توں رہیں گے۔

سندھ کے تعلیمی ادارے فرنیچر ، چار دیواری، پانی واش روم کی سہولیات سے محروم ہیں۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال خراب ہے۔ لوگ بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں اور حادثات کی شکل میں بڑی اموات ہوتی رہتی ہیں حکومت نے اس حوالے سے کوئی نئی اسکیم متعارف نہیں کروائی ہے۔ کراچی اورنج لائن کیلئے کوئی مناسب رقم نہیں رکھی گئی ہے۔ ہر طرف گھڑے کھودنے کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے اس لئے اس کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

کورونا وباکی صورتحال کے پیش نظر اندرون سندھ کے ہسپتالوں میں تسلی بخش انتظامات نہیں جس کی وجہ سے مریض کراچی کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اسلئے لاڑکانہ، سکھر، میرپورخاص و دیگر شہروں میں بھی اس مرض کے علاج کا بندوبست کیا جائے۔ سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سدباب کیلئے کوئی اقدامات تجویز اور اس کی ویکسن کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ ہر شہر کے ہسپتال میں آسانی کے ساتھ مل سکے ۔