راجیو گاندھی پر خودکش حملہ، کیا مجرمان کبھی رہا ہوں گے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 17 جون 2021 16:20

راجیو گاندھی پر خودکش حملہ، کیا مجرمان کبھی رہا ہوں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2021ء) بھارتی ریاست تامل ناڈو کی نئی حکومت راجیو گاندھی قتل کیس کے اُن سات مجرمان کو رہا کرنے پر غور کر رہی ہے، جو گزشتہ تین عشروں سے جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک خاتون ہیں۔

ریاستی حکومت نے ان مجرمان کو معاف کر کے جیل سے رہا کرنے کی کئی بار سفارش کی تاہم مرکزی حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس لیے ریاستی حکومت اس نئے اقدام پر غور و فکر کر رہی ہے۔

اکیس مئی سن 1991 میں راجیو گاندھی تامل ناڈو کے شہر پیرم بدور میں ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے لیے وہاں پہنچے تھے اور اس خودکش حملے میں ان کے ساتھ دیگر چودہ افراد بھی مارے گئے تھے۔

(جاری ہے)

اس قاتلانہ حملے کے لیے تین افراد کو موت جبکہ چار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن بعد میں عدالت عظمی نے موت کی سزا پانے والوں کی سزا کو بھی عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔

اس جرم کے لیے جو افراد گزشتہ تیس برسوں سے جیل میں قید ہیں، ان میں سے چار سری لنکا کے شہری ہیں۔

قصورواروں کی رہائی کا مطالبہ

بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنان اور ریاست تامل ناڈو کی کئی سرکردہ سیاسی شخصیات ان قیدیوں کو سماج کے لیے اب کوئی خطرہ نہ بتاتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ سن 2018 میں ریاستی حکومت نے ان کی فوری رہائی کے لیے صدر جمہوریہ کو ایک سفارشی مکتوب بھی لکھا تھا تاہم اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

گزشتہ ماہ جب ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے بھی ایک خط کے ذریعے سابقہ حکومت کی سفارشات کے بارے میں صدر جمہوریہ کو یاد دلایا۔ صدر حکومت کے مشورے پر عمل کرتا ہے اور اس پر جب کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا تو اب ریاستی حکومت انہیں جیل سے باہر لانے کے لیے دوسرے طریقے پر غور کر رہی ہے۔

بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ریاستی حکومت ایسے افراد کو لمبی مدت کے لیے پےرول پر رہا کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور نئی ریاستی حکومت اسی راستے پر غور و فکر کر رہی ہے۔

ریاستی حکومت کے ایک ذریعے کے مطابق اس معاملے میں’’آئین کی تابعداری نہیں کی جا رہی، اس لیے جب تک ہم انسانی بنیادوں پر انہیں انصاف فراہم نہیں کرتے یا پھر عدلیہ اس میں مداخلت نہیں کرتی، ہم انہیں پےرول پر رہا کر کے ریلیف دے سکتے ہیں۔‘‘

ریاستی حکومت کا موقف ہے کہ ان قصورواروں سے متعلق وزارت داخلہ نے بھی اپنی رپورٹ میں کئی بار یہ بات دہرائی ہے کہ ان افراد کو واپس ان کے گھروں میں بھیجنے سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور ظاہر ہے ریاستی حکومت کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ ایسے قیدیوں کو پے رول مہیا کر سکتی ہے۔

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں میں سے بعض کو ماضی میں بھی پولیس یا بغیر پولیس کے پےرول پر رہا کیا جا چکا ہے، ’’ان کے کردار سے متعلق جو سرٹیفیکیٹ جاری کیے گئے ہیں، ان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ ان سے کسی جرم کا کوئی خدشہ تک نہیں ہے۔ وہ تیس برس سے جیل میں ہیں، ان میں سے بعض تو قید تنہائی میں ہیں۔ انہیں اب ایک نارمل زندگی گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

‘‘

بھارت میں عام طور پر جو قیدی عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہوں اور جیل حکام نے ان کے بہتر کردار کی تصدیق کر دی ہو تو بیس برس مکمل ہونے کے بعد حکومت کی سفارش پر عموماً انہیں رہا کر دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ان سے متعلق کوئی خطرہ نہ ہونے کی بھی رپورٹ جاری کرے۔

راجیو گاندھی قتل کیس کے قصورواروں کی رہائی کے لیے جیل حکام بھی یہ کہہ کر حمایت کرتے رہے ہیں کہ ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور عمر قید کے حیثیت سے انہوں نے تیس برس سے بھی زیادہ کی سزا کاٹ لی ہے۔

تاہم بھارت کا ایک حلقہ ان افراد کی رہائی کی مخالفت بھی کرتا رہا ہے۔

سری لنکا کے شہریوں کا معاملہ

سات مجرمان میں سے تین بھارتی جبکہ چار سری لنکا کے شہری ہیں۔ پیراریولن کا تعلق تامل ناڈو کے ویلور سے ہے، خاتون قیدی نالنی چینئی کی رہنے والی ہیں جبکہ روی چندرن کا تعلق مدروائی سے ہے۔

اس کے علاوہ مورگن، سنتھان، رابرٹ پیاس اور جیا کمار سری لنکا کے شہری ہیں۔

مورگن کی بیوی نالنی بھارتی ہیں اور اسی طرح جیا کمار کی اہلیہ بھارتی ہیں تاہم جیا کمار کی اہلیہ کو عدالت نے بری کر دیا تھا۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر سری لنکا کے قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ انہیں بھارت میں ہی رہائش کی اجازت دی جائے یا پھر انہیں واپس بھیجا جائے۔ ایک سینیئر ریاستی اہلکار کے مطابق انہیں بھارت سے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا اور انہیں پناہ گزین کا درجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حکام کے مطابق انہیں پےرول کے دوران عارضی طور پر سری لنکا کے ان کیمپوں میں بھیجا جا سکتا ہے جو ریاست میں سری لنکن تامل شہریوں کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔

راجیو گاندھی کے قتل کا الزام سری لنکا کی شدت پسند تنظیم ایل ٹی ٹی ای پر عائد کیا گیا تھا اور جو افراد اس جرم کے لیے جیل میں ہیں، ان سب کے تعلق اسی تنظیم ایل ٹی ٹی ای کے ساتھ تھے۔

ایل ٹی ٹی ای سری لنکا میں علیحدہ تامل ریاست کے قیام کے لیے مسلح جد و جہد میں لگی تھی۔ اس کی بڑھتی مسلح سرگرمیوں پر قابو پانے اور حکومت کی مدد کے لیے راجیو گاندھی نے سری لنکا میں بھارتی فوجی دستے تعینات کر دیے تھے۔ ایل ٹی ٹی ای نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا اور انتقام کے لیے یہ کارروائی کی تھی۔