موجودہ حکومت’’ جو دکھتا ہے وہ بکتاہے‘‘ کی پالیسی سے ہٹ کر کام کر رہی ہے ،اس بار بجٹ کا فلسفہ پہلے سے مختلف ہے ‘ہاشم جواں بخت

حکومت کا کمال صرف فنڈز کی فراہمی نہیں بلکہ ان کا موثر استعمال ہے جو موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح ہے‘صوبائی وزیر خزانہ کا تقریب سے خطاب

جمعرات 17 جون 2021 19:27

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جون2021ء) صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہاہے کہ موجودہ حکومت ’’جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے ‘‘کی پالیسی سے ہٹ کر کام کر رہی ہے ،اس بار بجٹ کا فلسفہ پہلے سے مختلف ہے ،مجموعی ترقی کا مطلب افادیت سے خالی انفراسٹرکچر کی منصوبے نہیں درحقیقت انسانوں پر سرمایہ کاری مجموعی ترقی کو یقینی بناتی ہے،موجودہ حکومت 86ارب روپے کے قرض سے 16پسماندہ ترین تحصیلوں میں سول ورکس پر خرچ کیے جائیں گے، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج کے مسائل اور رابطہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت جیسے مسائل کا حل علاقائی سطح پر پسماندگی کی شرح میں کمی کا سبب بنیں گے، ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام کا انتخاب لیبر کی کھپت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، ریور راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری اور صاف پانی کی فراہمی کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب ہے، معاشی مقاصد منصوبے کے اضافی فوائد ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ترقی، غربت کی شرح اور خوراک کے تحفظ کے عنوان سے سیمینار میں خطاب کے دوران کیا صوبائی وزیر نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی کے لیے زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لیے پروگریسو سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور توسیعی خدمات( extension (services میں بہتری محاصلات میں اضافے کو یقینی بنائے گی۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت کا کمال صرف فنڈز کی نہیں فراہمی نہیں بلکہ ان کا موثر استعمال ہے جو موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔غربت میں کمی کے لیے صوبے کے 50لاکھ خاندانوں کو پورے لائف سائیکل میں جس میں پیدائش سے تعلیم اور تعلیم سے روزگار تک کی سہولیات کی فراہمی کے جامع منصوبہ بندی کے ذریعے غربت کی لکیر سے اوپر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

موجودہ بجٹ میں زراعت کے شعبہ میں بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے ۔صوبائی وزیر نے سیمینار کے شرکاکو بجٹ دستاویزات کو پڑھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آ ئند ہ مالی سال کا بجٹ ترقی کے لیے غربت میں کمی اور صوبے کی غذائی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں دالوں کی برآمدات 40سال سے کی جا رہی ہے کوشش ہے کہ ملک کی غذائی ضروریات ملک کے اندر سے پوری ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ کوویڈ کے دوران لوگوں کے لائف سٹائل میں تبدیلی آئی غذائی ضروریات تبدیل ہوئی طلب اور رسد میں کمی سے مسائل پیدا ہوئے اور مہنگائی میں بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہوا۔ صوبائی وزیر برائے زراعت حسین جہانیاں گردیزی نے مہنگائی میں کمی کے لیے زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری میں اضافے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سال زراعت نے 2.7 فیصد ترقی کی اس کے اس سے کئی گناہ زیادہ تھے۔

کسانوں کو پہلے سے بہتر قیمتیں ادا کی گئیں ۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ پیداواری شعبہ میں پائیدار ترقی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر اصغر رضوی نے اپنے خطاب کے دوران موجودہ دور میں زرعی میدان میں جدت کے حوالے سے کوششوں اور سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو سراہا۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل ملک نے کہا کہ پالیسی سازی میں شرح نمو کا تعین اعدادو شمار کی بجائے اثرات سے کیا جانا چاہیے۔

سرکاری اداروں میں مانیٹرنگ اور evaluation کا فقدان مسائل میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ مانیٹرنگ اینڈ evaluation کے لیے جامعات سے خدمات بہتر نتائج کا سبب بنیں گی ۔زراعت میں ایکسٹینشن سروسز کے لیے بھی جامعات کے طلبہ زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔پی اینڈ ڈی کے نمائندہ خالد سلطان نے ڈاکٹر سہیل کی تجاویز کو سراہتے ہوئے واٹر کرائسز کو اہم مسئلہ قرار دیا ۔ڈاکٹر فاروق اعظم نے انڈسٹریل زونز کی طرح ایجوکیشنل زونز کے قیام، اور ڈاکٹر سرفراز نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تربیت یافتہ لیبر میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔ سیمینار کے اختتام پر صوبائی وزیر نے گورنمٹ کالج میں پودا لگایا اور نئے سکوائش کورٹ کا بھی افتتاح کیا۔