'فلائنگ سکھ‘ مِلکھا سنگھ چل بسے

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 19 جون 2021 15:00

'فلائنگ سکھ‘ مِلکھا سنگھ چل بسے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جون 2021ء) بھارت کے شہرہ آفاق کھلاڑی اوراولمپک سمیت متعدد بین الاقوامی اسپورٹس مقابلوں میں بھارت کی نمائندگی کرنے والے اکیانوے سالہ ملکھا سنگھ ایک ماہ تک کورونا وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے جمعے کے روز زندگی کی جنگ ہار گئے۔

ملکھا سنگھ کے کنبے کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ”ہم انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ ملکھا سنگھ جی 18 جون 2021 کو رات ساڑھے گیارہ بجے چل بسے۔

انہوں نے بیماری کا زبردست مقابلہ کیا لیکن خدا کے آگے کس کی چلتی ہے۔ اور غالباً یہ حقیقی محبت اور رفاقت ہی تھی کہ ہماری والدہ نرملا جی اور اب والد محض پانچ دنوں کے وقفے سے ایک دوسرے سے جاملے۔"

پانچ روز قبل ہی ملکھا سنگھ کی اہلیہ بھارتی والی بال ٹیم کی سابق کپتان نرملا کور کی بھی کورونا سے موت ہوگئی تھی۔

(جاری ہے)

’فلائنگ سکھ‘ کا خطاب کیسے ملا؟

ملکھا سنگھ نے 1958 کے کارڈف کامن ویلتھ گیمز میں پہلا گولڈ میڈل جیتا۔

اس کے بعد مختلف ایشیائی کھیلوں میں انہوں نے چار گولڈ میڈل جیتے۔ تاہم اولمپک میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ روم اولمپکس میں 400 میٹر کی دوڑ میں وہ چوتھے نمبر پر رہے۔ انہوں نے 45.73 سیکنڈ یہ فاصلہ طے کیا، جو چار دہائیوں تک بھارت کا قومی ریکارڈ رہا۔ اس واقعے پر بالی ووڈ میں سن 2013 میں 'بھاگ ملکھا بھاگ‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی۔

سن 1960 میں ملکھا سنگھ کو پاکستان کی طرف سے انڈیا پاکستان ایتھلیٹکس مقابلے میں حصہ لینے لیے مدعو کیا گیا۔ اس سے قبل ہی انہوں نے ٹوکیو ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کے سب سے بہترین اسپرنٹر عبدالخالق کو 200 میٹر کی دوڑ میں ہراکر گولڈ میڈل جیتا تھا۔

ملکھا پاکستان جانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ تقسیم کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تازہ تھیں جب ان کے خاندان کے تقریباً تمام افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔

لیکن اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے اصرا ر پر وہ پاکستان گئے۔ لاہور کے اسٹیڈیم میں ایک شاندار مقابلے میں جب انہوں نے فنشنگ لائن پار کی تو وہ پاکستانی کھلاڑی عبدالخالق سے دس گز آگے تھے۔

ملکھا سنگھ کو میڈل دیتے ہوئے اس وقت کے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے کہا تھا، ”ملکھا آج تم دوڑے نہیں، اڑے ہو۔

میں تمہیں فلائنگ سکھ کا خطاب دیتا ہوں۔"

ملکھا سنگھ نے 1956 اور 1964 کے اولمپکس مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔ انہیں بھارت کے چوتھے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ پدم شری سے نوازا گیا۔

تعزیت کا سلسلہ

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی، صدر رام ناتھ کووند، وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت متعدد وزراء، سیاسی رہنماؤں، کرکٹرز، اولمپک کھلاڑیوں، فلمی اداکاروں، سول سوسائٹی کی معروف شخصیات اور مختلف اسپورٹس انجمنوں نے ملکھا سنگھ کی وفات پر تعزیت کااظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو بھارت میں اسپورٹس کے ایک 'زریں دور کے خاتمے‘ سے تعبیر کیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے ملکھا سنگھ کی موت کو قومی خسارہ قرار دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا، ”ہم نے ایک عظیم الشان کھلاڑی کو کھودیا، جس نے قوم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی اور بے شمار بھارتیوں کے دلوں میں اپنے لیے خصوصی جگہ بنائی تھی۔ ان کی زندگی نے لاکھوں افراد کو حوصلہ بخشا تھا۔"

’بھاگ ملکھا بھاگ‘ میں ملکھا سنگھ کا کردار اداکرنے والے فلم اداکار فرحان اختر نے جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، ”مجھے یہ یقین نہیں ہورہا ہے کہ آپ اب موجود نہیں رہے۔

آپ کی زندگی سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ کبھی بھی ہمت نہ ہارو۔"

ملکھا سنگھ کون تھے؟

ملکھا سنگھ سن 1929میں پاکستانی صوبے پنجاب کے گوبند پور گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات میں ان کا تقریباً پورا خاندان ہلاک ہوگیا۔

تقسیم کے چند دنوں بعد ان کے والد نے انہیں امداد حاصل کرنے کے لیے کہیں بھیجا۔

وہ سرحد پار کرکے بھارت پہنچ گئے لیکن اس دوران ان کے گاؤں میں فسادات بھڑک اٹھے اور ان کے والدین مارے گئے۔ ملکھا سنگھ نے بعد میں بھارت کو اپنا وطن بنالیا۔

ملکھا سنگھ کے بیٹے جیو ملکھا سنگھ گولفر ہیں اور انہوں نے کئی بین الاقوامی مقابلے جیتے ہیں جبکہ مونا سنگھ، سونیا سنگھ اور علیزہ گروور ملکھا سنگھ کی تین بیٹیاں ہیں۔