'امن مذاکرات پر قائم ہیں، حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں،' افغان طالبان

DW ڈی ڈبلیو اتوار 20 جون 2021 16:00

'امن مذاکرات پر قائم ہیں، حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں،' افغان طالبان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2021ء) آج اتوار کے روز جاری کردہ ایک بیان میں طالبان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ ہندو کش کی اس ریاست میں ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں، جس میں ’مذہبی اصولوں اور ثقافتی روایات‘ کے مطابق خواتین کے حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہو۔ یہ بیان ایک ایسے وقت پر جاری کیا گیا ہے، جب افغان حکومت اور طالبان کے مابین بات چیت میں کئی ماہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ملک بھر میں تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اسلامی نظام حکومت کا نفاذ

افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا سلسلہ مئی سے شروع ہو چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آ سکتا ہے اور وہ ملک میں سخت شرعی قانون نافذ کر دیں گے۔

(جاری ہے)

ماضی میں طالبان نے ایسے ہی اسلامی نظام کا نام لے کر لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر رکھی تھی اور زنا کے مرتکب افراد کو سنگسار بھی کر دیا جاتا تھا۔

تاہم ایسے خدشات کے باوجود طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کا کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے عمل میں مخلص ہیں۔ برادر کا کہنا ہے، ’’ان مذاکرات میں ہماری شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم باہمی مشاورت کے ساتھ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘‘ افغان طالبان کے نائب سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان شہریوں کے لیے ’اسلامی نظام حکومت‘ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

خواتین کے حقوق سے متعلق خدشات

اس بیان سے افغان شہریوں میں طالبان کی سوچ کی وجہ سے خواتین کی آزادی سے متعلق خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے۔ ملا برادر کے مطابق، ’’اسلامی قواعد کے مطابق خواتین کو حقوق دیے جائیں گے۔‘‘ لیکن بہت سے افغان شہریوں کو خدشہ ہے کہ طالبان جو نظام چاہتے ہیں، وہ 2001ء کے بعد سے ملکی معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں سے تصادم ہو گا۔


ابھی گزشتہ ماہ ہی ایک امریکی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر طالبان حکومت سنبھالتے ہیں، تو گزشتہ دو دہائیوں میں خواتین کے حوالے سے ہونے والی سماجی پیش رفت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

امریکی فوج اس سال گیارہ ستمبر سے پہلے افغانستان سے اپنے انخلا کی تکمیل کی کوششوں میں ہے۔ لیکن ساتھ ہی طالبان اور افغان فوجیوں کے مابین جنگی کارروائیوں کا سلسلہ بھی شدید ہوتا جا رہا ہے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت کے زیر کنٹرول چالیس قصبوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان جنگی کارروائیوں کے باعث ہزاروں افغان شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ اس بارے میں ملا عبدالغنی برادر نے افغان نوجوانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنا ملک مت چھوڑیں۔ ملا برادر نے ملک میں اقلیتوں، فلاحی تنظیموں اور سفارت کاروں سے بھی کہا ہے کہ انہیں طالبان سے کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔

ب ج / م م (اے ایف پی)