Live Updates

تحریک انصاف کے اراکین سندھ اسمبلی بجٹ اجلاس میں سندھ حکومت اور وزیر اعلی سندھ پر برس پڑے

بجٹ میں ہونے والی نا انصافیوں ناقص پالیسیوں اور اپوزیشن ارکان کی تجاویز کو مسترد کرنے پر سندھ حکومت اور وزیر اعلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا

پیر 21 جون 2021 22:53

کرا چی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2021ء) پاکستان تحریک انصاف کے اراکین سندھ اسمبلی بجٹ اجلاس میں سندھ حکومت اور وزیر اعلی سندھ پر برس پڑے۔ اراکین اسمبلی نے سندھ کے بجٹ میں ہونے والی نا انصافیوں ناقص پالیسیوں اور اپوزیشن ارکان کی تجاویز کو مسترد کرنے پر سندھ حکومت اور وزیر اعلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی جمال صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کی دکان پکوڑو کی اور باتیں کروڑوں کی ہوتی ہیں۔

بجٹ کی 4 کلو کی کتاب میں کوئی اپوزیشن کی تجویز نہیں ہے۔ وزیر اعلی نے اپوزیشن کی تجاویزردی کے ٹوکری میں ڈال دی ہیں۔ اگر بجٹ کا فیصلہ 4 لوگوں نے کرنا ہے تو کیوں بجٹ اجلاس طلب کیا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک کے خزانے پر کیوں بوجھ ڈالا گیا۔ سندھ حکومت کے لوگ صرف دنیا میں نقصان پہنچانے کیلئے آئے ہیں۔ صوبے میں کے ایم سی کے ختم ہونے سے سرکاری کارٹونوں کو ایڈمنسٹریٹر لگایا ہوا ہے، نالائق ڈپٹی کمشنر ڈزی ایم سیز کے ایڈمنسٹریٹر بنے ہوئے ہیں۔

یہ وہ افسران ہیں جو عوامی مسائل میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کی دلچسپی اپنے مالکوں کی زمینیں ڈھنونڈنے میں ہے۔ سندھ حکومت ایسے کماں پوتوں کو اچھے اعلی عہدے دیتی ہے۔ جلد ایسی ایوان میں کرپٹ بیوروکریسی کو بے نقاب کریں گے۔ جمال صدیقی نے مزید کہا کہ یہاں ہر شخص سندھ کو چھوڑکر وفاق پر ماتم کررہا ہے۔ جس کرونا پر سندھ حکومت سیاست کررہی ہے اسی وبا میں وزیراعظم نے معیشت کو مستحکم کیا۔

حسد میں جلنے کے بجائے پی پی وزیراعظم سے سیکھے۔ وزیراعظم نے برے وقت میں ریاست کو کھڑا کیا۔ بعض عمران خان میں سنڈھ حکومت کا سانس بند ہوا ہے۔ وزیراعظم نے 9 کروڑ لوگوں کو 200 ارب سے سپورٹ کیا۔ وزیراعظم نے سندھ میں 66 ارب روپے سندھی بھائیوں کو دیے۔ سندھ حکومت نے 5 روپے کی ویکسین تک نہیں خریدی۔ دو دن صوبے میں ویکسین ختم ہوئی، سندھ حکومت میں ویکسین دینے کی طاقت ہی نہیں ہے۔

وزیر اعلی کے ایم سی اور یو سی کا کام کررہے ہیں تنقید وفاق پر کرتے ہیں۔ بجٹ کی کتاب میں 50منصوبے نامکمل ہیں۔ میہڑ ٹراما سینٹر کے باہر زرداری صاحب کی تختی لگی ہے۔ انہوں نے اپنے چئیرمن کو ماموں بنادیا۔ ٹراما سنٹر بھوت بنگلہ ہے کچھ نہیں ہے وہاں۔ 2018 میں 850ارب سے ٹھٹہ کوسٹل ہاے شروع کرنا تھا۔ اس میں دو بڑے ہاتھیوں کی لڑا میں ٹھٹھہ کوسٹل ہائی وے پھڈہ ہائی وے بن گیا۔

جمال صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے شہدا کے نام پر پروجیکٹ بھی التوا کا شکار ہیں،نوڈیرو کے لوگوں کو جو پانی پلایا جاتا ہے وہ وزیر اعلی پی کر دکھائیں۔پی ٹی آئی کی رکن سندھ اسمبلی ادیبہ عارف حسن کا کہنا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں یہاں روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے ملازم کو 10ہزار بھی نہیں دیے جاتے، اس موقع پر 25ہزار پر عمل مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

صوبے کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ سندھ حکومت نے بجٹ میں غریب کسانوں کو مکمل نظرانداز کیا ہے۔ کسانوں کو کھاد مہنگی دی جارہی ہے۔ صوبے میں غربت کے خاتمے کیلئے کوئی پروگرام نہیں رکھا گیا۔ سندھ حکومت کا بجٹ ناکام بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سولڈ ویسٹ کو ہر سال گرانٹ دی جاتی ہے، اس کے باوجود ہر جگہ کچرا نظر آتا ہے۔

بجٹ میں بڑی رقم آر او پلانٹس پر رکھی جاتی ہے۔ ہر آر او پلانٹ پر بی بی کے نام کی پلیٹ لگی ہے لیکن کوئی آر او پلانٹ نہیں چل رہا۔ یہ بجٹ عوام کا بجٹ نہیں ہے۔ رکن سندھ اسمبلی دعا بھٹو کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں بلاول بھٹو نے نامکمل صنعتی زون کا افتتاح کردیا، یہ لوگ بینظیر کے نام کی تو لاج رکھ لیتے۔ یہاں پر پکے کے ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ چانڈکا اسپتال لاڑکانہ کو اربوں روپے سا لانہ دیئے جاتے ہیں۔

لاڑکانہ میں مریض کو ایمبولینس نہیں ملی وہ بھیک مانگ کر ایمبولینس کا انتظام کرتارہا۔انہوں نے مزید کہا کہ 26لاگوں کو کتوں نے کاٹ لیا۔ وزیر صحت کو کتوں کو قابو کرنے کیلئے دس سال اور درکار ہیں۔ 13سال پہلے اور دس مزید سال لگیں گے۔ انشاللہ پاکستان تحریک انصاف ان سندھ کے کتوں کو قابو کرکے رہے گی اور کچھ ہی ماہ میں ان کا کام تمام کرکے رہے گی۔

سندھ میں زخمی مائیں بھینسوں کے ساتھ لیٹی ہوئی ہیں۔ تھر کے بچے جو کھاتے ہیں وہ صوبائی وزیروں کے کتے کھاتے ہیں۔ تھر کے بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ سندھ کی ہیپاٹائیٹس سے متعلق خبریں نیویارک ٹائمز نیویارک ٹائمز کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ 13 سال سندھ کا بجٹ کہاں استعمال ہوا اس کا حساب دیا جائے۔ صوبے کے بجٹ میں صرف نمبروں کی ہیر پھیر ہے۔ سنڈھ حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔

رکن اسمبلی رابستان خان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ہمیں عمران خان جیسا لیڈر ملا جو آج امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے کہ ہوائی اڈے نہیں دوں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی سندھ نے بجٹ سندھ کی عوام کو دھوکا دینے کیلئے پیش کیا۔ہسپتالوں کے افتتاح کی تختیاں لگی ہوئی ہیں، 2010 میں لگائی گئی تختیاں ہیں مگر ہسپتال کا فنڈ سندھ حکومت کھاگئی۔

پیر بخش گوٹھ میں اسکول کی بلڈنگ کا افتتاح ہوا اسکول غائب ہے۔ سندھ حکومت صرف عوام کو لالی پاپ دیتی ہے مگر کام نہیں کرتی۔ محمد حسن گوٹھ میں سرکاری بوائز اسکول میں دو سال پہلے بچے زخمی ہوئے۔ اسکول کی چھت گرنے سے اسکول بند ہے، اسکول میں نہ بچے آرہے ہیں نہ اساتذہ۔ سعید غنی سے اسکول کی بحالی کیلئے درخواست کروں گا۔ ایوان میں آواز اٹھانے کا مقصد ہے شاید سعید غنی کی آنکھوں میں شرم آجائے۔

رابستان خان نے مزید کہا کہ وزیر اعلی نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں ایمرجنسی لگائی۔ سندھ کی کوئی یونیورسٹی ٹاپ ٹین ریکنگ میں نہیں ہے۔ ہم تعلیم میں دنیا میں سب سے پیچھے چلے گئے۔ سندھ یونیورسٹی 4032 ویں نمبر پر آتی ہے۔ مہران انجینئرنگ یونیورسٹی 5985ویں نمبر پر ہے۔ لیاقت میڈیکل کالج 7729ویں نمبر پر ہے۔ اور وزیر اعلی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایمرجنسی نافز کی، یہ اس ایمرجنسی کے ثمرات ہیں۔

نور محمد گوٹھ، عیسی گوٹھ، فیضان ٹان، انڈس ویلیج سب ایک ڈسپنسری پر چلتے ہیں۔ اور ڈسپنسری کے باہر سیوریج کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ خدارا ہسپتالوں کو فعال کیا جائے۔ لیاری ریسیٹلمنٹ پروجکٹ کا پمپنگ اسٹیشن کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پانی لوگوں کو گھروں میں میسر نہیں ہے۔ ایم ڈی سے بات کریں تو کہتے ہیں سسٹم کے ذریعے آئیں، سسٹم کس کا ہے ہم نہیں جانتے۔

رکن سندھ اسمبلی شاہنواز جدون کا کہنا تھا کہ ہمارے حلقے کیماڑی سلطان آباد مچھر کالونی اور جزیروں پر مشتمل ہے۔ 6 لاکھ کی آبادی میں کوئی گلز کالج نہیں ہے اور مسلسل ہر سال وزیر تعلیم اور وزیر اعلی کو خط لکھ رہا ہوں۔ ایک سیکنڈری اسکول ہے جہاں لڑکیاں 5 کلو میٹر چل کر جاتی ہیں۔ حلقے میں پانی کی شدید مسئلہ ہے۔ 70فیصد عوام پانی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

یہ سندھ حکومت کی نااہلی نہیں ہے تو کیا ہے۔ 13سال سے پی پی نے صوبے میں کچھ نہیں کیا۔ آج چیف جسٹس بھی صوبے سندھ کو کہتے ہیں کہ سندھ سب سے پیچھے ہے کیونکہ سندھ میں آج تک کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ حقائق کی بنیاد پر بول رہا ہے۔ بچوں کے پاس اسکولوں میں بیٹھنے کیلئے بینچز نہیں ہیں۔ دوسرے صوبے ترقی کررہے ہیں کیونکہ وہاں عمران خان جیسے ایماندار شخص کی حکومت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کیلئے 10ہزار کا وعدہ کیا مگر بسیں نہیں دی گئیں، سندھ کے ہسپتالوں میں ایمبولینسز نہیں ہیں۔ اسی نااہلیوں کی وجہ سے سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کیخلاف ریمارکس دیے۔ 13سال سے سندھ حکومت سندھ کے عوام کے پیسے پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔رکن سندھ اسمبلی ریاض حیدر نے بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اے ڈی پی میں میرے حلقے کیلئے واٹر لائن اور سیوریج لائن کی اسکیم رکھی گئیں، جنوری 2020 میں اے ڈی پی کے حوالے سے وزیر بلدیات کو خط لکھے تھے، میرے حلقے میں پینے کے پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔

دوسری جانب گٹر کا پانی سیوریج کا بوسیدہ نظام بھی حلقے کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے، بعض علاقے ایسے ہیں جو کئی سالوں سے پانی سے محروم ہیں،کچھ لوگ ٹینکر اور بورنگ سے کام چلارہے ہیں۔ ٹینکر مافیا اپنے ریٹ سے 3 4 گناہ زیادہ مہنگا کر دیتے ہیں۔ ٹینکر سرکاری ریٹ پر نہیں ملتا ہے،عید تہوار پر ٹینکر مافیا اپنے ریٹ میں اضافہ کردیتے ہیں، صوبے میں پانی چوری ہورہا ہے ،انہوں نے کہا کہ کل کی خبر میں وزیر بلدیات کے ساتھ شکیل مہر نظر آئے، شکیل مہر پانی چوری میں ملوث کی دو ایف آئی آر میں مطلوب ہیں، دو الگ پولیس اسٹیشن میں شکیل مہر کیخلاف مقدمات موجود ہیں۔

اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ کیا پانی چوری میں وزیر بھی ملوث ہیں، وزیر اعلی کو ایف آئی آر کا علم لازمی ہوگا، سیف اللہ مگسی کینال 1سے ڈیڑھ کلو میٹر پر منظور ہوئی تھی، ایگریگیشن کے وزیر سیف اللہ مگسی کینال کا سروے کریں۔ وزیر اعلی صوبے کے سربراہ ہیں ان کی زمہ داری ہے کی عوام کو سچائی بتائیں کے پانی چوری میں کون ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی نے 13سال میں 8912 ارب کا بجٹ پیش کیا،کراچی میٹروپالیٹن شہر ہے، اس شہر کو پی پی کی 13سال کی محنت نے تباہ کردیا، عالمی سطح پر کراچی کو بدترین رہائش کے قابل قرار دیا گیا، کراچی میں صاف پانی لوگوں کو میسر نہیں ہے، سندھ میں 25 فیصد صاف پانی فراہم کیا جاتا ہے، مگر کراچی میں 17فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

سیوریج کی لائنین ایس ڈی جی فنڈز سے مجبور ہوکر حلقوں میں ڈلوارہے ہیں۔ ہمیں اتنا فنڈ نہیں دیا جارہا کہ پورے علاقے کو ڈیولپ کرلیں۔ مگر ہم ان علاقوں میں کام کروارہے ہیں جہاں عوام کا گزر زیادہ ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ عوام کے آنسو پونچھ لیں،کچرے کے حوالے سے حکومتی اقدامات صفر ہیں۔ حکومت ڈیولپ تو کرتی ہے اصل مسئلہ گورننس کا ہے ،گورننس ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں، باپوں کو کنٹرول کرنے میں یہ ناکارہ ہیں،ٹرانسپورٹ کے حوالے سے سنا ہے ایک کوشش کی جارہی ہے۔

حیرانی ہوئی جب حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھیں گئی،ایک پرائیویٹ گروپ نے بس منگوائی جس کا افتتاح وزیر ٹرانسپورٹ کررہے تھے۔کیا سندھ کے لوگوں کو پتہ نہیں چلے گا کہ آپ نے کیا کیا ہے سندھ حکومت عوام کو بیوقوف بنانا چھوڑ دے عوام سب سمجھتی ہے۔ سلمان فاروقی کس کا دوست تھا کس سے رابطے تھا کس جماعت کا حصہ تھا۔ 2008 میں ریاض لعل جی نے پلی بارگین کی اور ان کا کردار اسٹیل ملز کو ختم کرنے میں رہا۔

اسٹیل ملز کو تباہ کرنے میں پی پی کا کردار ہے،مشرف دور میں اسٹیل ملز کے خزانے میں 9سے 10ارب موجود تھے، وفاق نے کسانوں کیلئے بلاسود قرضے دیے، بی آئی ایس پی میں عمران خان نے ایسے لوگ نکالے جو مستحق نہیں تھے، اس پروگرام میں سندھ حکومت کے ملازمین شامل تھے جن کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات