کیا ’دھوپ کی دیوار‘ ملک دشمنی اور غداری ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 24 جون 2021 18:00

کیا ’دھوپ کی دیوار‘ ملک دشمنی اور غداری ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2021ء) ''کئی دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے، کئی دہائیوں تک یہی ہوتا رہے گا۔ موت سے آنکھ مچولی کا کھیل کوئی تو ختم کرے دادی!‘‘

''دشمن کا دکھ بھی تو ہمارے جیسا ہی ہے‘‘۔

سارہ اور وشال کے بیچ کے یہ ڈائیلاگ عمیرہ احمد کا ڈرامے 'دھوپ کی دیوار‘ کے ہیں، جو زی ٹی وی پر نشر ہو گا۔

ویب سیریز 'دھوپ کی دیوار‘ نے براڈ کاسٹ ہونے سے قبل ہی بھارت اور پاکستان کے بیچ ایک تنازعے کی دیوار کھڑی کر دی ہے۔

جب نسلوں کی پرورش کرتے ہوئے آپ گداز جذبوں کی بجائے دشمنی یا نفرت کو بنیاد بنائیں اور بچپن سے درسی کتب میں بھی دیوار کے اس پار رہنے والے راکھشس کی کہانیاں سنائی جائیں تو ایسی نسلیں بڑی ہو کر کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہوتیں، حتی کہ وہ وقت کی رفتار دیکھنے سے بھی عاری ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

'دھوپ کی دیوار‘ کا ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اس کو بین کرنا چاہیے بلکہ نشر ہونے سے پہلے ہی روک دینا چاہیے کیونکہ یہ ویب سیریز کشمیری عوام سے 'غداری‘ ہے۔ اور غداری بھی وہ والی، جس میں مصنفہ ایک مشہور پاکستانی ناولسٹ اور ڈرامہ رائٹر ہو، فلم کی ہیروئن پاکستانی مسلمان لڑکی اور ہیرو بھارتی ہندو لڑکا ہو، دونوں کے والد فوجی ہوں لیکن دونوں ایک جھڑپ میں ہلاک ہو جائیں۔

سونے پر سہاگا کہ اس کی کہانی خاص کر پلوامہ حملے کے تناظر میں لکھی گئی ہو تو ایسی صورت میں یہ ابال ایک بھونچال کی صوت اختیار کر لیتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ گوکہ سرحد کے اس پار بھی کچھ ایسے ہی خیالات دیکھنے کو ملے لیکن وہاں اعتدال بھی رہا اور اس کی حمایت میں بھی بیانیہ نظر آیا، کچھ امن پسند اس طرف بھی نظر آئے۔

بھارت اور پاکستان کا 'لو اینڈ ہیٹ‘ ریلیشن شپ ہے۔

یہ نہ ایک دوسرے کے بنا گزارا کر سکتے ہیں اور نہ ہی میل ملاپ اتنا بڑھنے دیتے ہیں کہ دلوں کی کدورتیں ہمیشہ کے لیے دور ہو سکیں۔ پاکستانی یہ بات تو برداشت کر لیتے ہیں کہ کوئی پاکستانی نوجوان کسی بھارتی کنہیا کو بیاہ کر اپنے وطن لے آئے لیکن ان کو یہ گوارا نہیں کہ ایک پاکستانی لڑکی کسی بھارتی ہندو لڑکے سے محبت کرے۔

’دھوپ کی دیوار‘ ایک ویب سیریز ہے، جسے مشہور پاکستانی ناولسٹ اور ڈرامہ رائٹر عمیرہ احمد نے تحریر کیا ہے۔

عمیرہ احمد کا شمار پاکستان کی چند انتہائی مقبول لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ اس ویب سیریز کا موضوع کشمیر اور سرحد کے پار دونوں اطراف بسنے والے انسانوں اور خاندانوں کی زندگیاں ہیں۔ اس میں بطور اداکار کام کرنے والے آرٹسٹ بھی پاکستانی ہیں۔ مرکزی کردار سجل علی اور احد رضا میر نے نبھائے ہیں۔

اب پچیس جون کو اس کا پریمیئر ہے لیکن اس پر جھگڑے کا آغاز اس کا ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد سے ہی اس نکتے سے ہوا ہے کہ یہ ویب سیریز زی فائیو خرید چکا ہے اور اب یہ زی فائیو پر نشر ہو گی۔

سرحد کو دونوں طرف عوام کے اس ڈرامے کے حوالے سے ملے جلے تاثرات ہیں لیکن اس مرتبہ ناپسند کرنے والوں کی بڑی تعداد ہماری طرف ہے۔ پاکستانی نوجوانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ڈرامے پر بین لگایا جائے کیونکہ یہ کشمیر کے موضوع پر بنا ہے اور کشمیری عوام ایک قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

متعدد پاکستانیوں کے مطابق کشمیر اپنی خصوصی آئینی حیثیت کھونے کے بعد 'دنیا کی سب سے بڑی جیل‘ کی صورت اختیار کر چکا ہے تو ایسے وقت میں پاکستانی رائٹر کا بھارت کے لیے ایک ایسا ڈرامہ لکھنا کشمیری عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی مترادف ہے بلکہ دو قومی نظریے کی بھی نفی ہے۔

لوگوں کی جانب سے عمیرہ احمد پر غداری کے فتوے بھی لگائے گئے۔ اس کے جواب میں عمیرہ احمد نے تفصیلی بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے جاری کیا۔ انہوں نے تفصیلات بتائیں کہ اس کا ڈرافٹ 2019 میں آئی ایس پی آر کو جانچ پڑتال کے لیے بھیجا گیا تھا اور آئی ایس پی آر کو اس ڈرافٹ میں کچھ بھی غلط نہیں لگا تھا بلکہ آئی ایس پی آر کی جانب سے اس کو سراہا گیا تھا۔

اس کہانی کو آئی ایس پی آر کی آشیر باد حاصل ہے، اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ پاکستان اور بھارت کے بیچ مراسم بڑھانے اور امن کی آشا کی اس خواہش کا باقاعدہ بیانیہ 2019 سے بھی پہلے ترتیب دے لیا گیا تھا۔ جنرل باجوہ کی کچھ عرصہ قبل صحافیوں سے طویل ملاقات کے بعد جب گفتگو باہر آئی تو لوگ یہ سمجھے کہ اب فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ دونوں طرف امن قائم ہو کیونکہ سیز فائر کا معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔

لیکن اس ڈرامے کی بابت تفصیلات جان کر یہ آشکار ہوا ہے کہ پاکستان فوج کی جانب سے امن کے بیانیے پر باقاعدہ طور پر کافی عرصے سے کام کیا جا رہا ہے۔

میرے خیال میں ہمیں سرحد کے اس پار اور سرحد کے اس پار رہنے والوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سمے یا وقت انسان کی رفتار سے تیز چلتا ہے اور اس کی رفتار کا ساتھ دینے میں ہی زندگی کا حسن قائم رہتا ہے۔

آج مسلم امہ کا لیڈر بننے کا خواہش مند ترکی بھی اسرائیل کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکا اور چین کی سخت مخاصمت کے باوجود امریکی منڈی میں پہلے نمبر پر جس ملک کے تجارتی مال کی کھپت ہوتی ہے، وہ چین ہے جبکہ بھارت اور پاکستان کے بیچ آلو اور ٹماٹروں کی تجارت بھی بند ہے۔

فلم، آرٹ، موسیقی، رقص اور کتاب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ فنون لطیفہ کو ہوا کی طرح بے لگام ہی ہونا چاہیے تاکہ دشمنوں کے بیچ بھی دوستیاں اور رشتے قائم رہ سکیں اور انسانیت سانس لیتی رہے۔