سندھ کا بجٹ ہندسوں کے ہیر پھیر اور زبانی جمع خرچ کے علاہ کچھ نہیں، سید مصطفی کمال

کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کو علم ہے کہ بجٹ پر عمل درآمد نہ بھی کیا جائے تو انہیں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے، چیئرمین پی ایس پی

جمعرات 24 جون 2021 21:10

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جون2021ء) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ 8400 ارب سالانہ روپے کا وفاقی بجٹ اور تقریبا 1400 ارب روپے کا سندھ کا بجٹ ہندسوں کے ہیر پھیر اور زبانی جمع خرچ کے علاہ کچھ نہیں۔ کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کو علم ہے کہ بجٹ پر عمل درآمد نہ بھی کیا جائے تو انہیں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے۔

عوام کا ان اعداد وشمار پر کوئی اعتبار باقی نہیں رہ گیا۔ سرکاری دعووں کے برخلاف عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے۔ صحت، تعلیم چھن چکی ہے، پاکستان کو تاریخی بیروزگاری کا سامنا ہے جبکہ دعوی 1 کروڑ نئی ملازمتیں دینے کا تھا۔ 50 لاکھ نئے گھر بنانے کے دعویداروں کی حکومت نے غریب کے سر سے چھت بھی چھین لی۔ساون کے اندھے حکومتی وزرا ایسے تبصرے کر رہے ہیں کہ جیسے پاکستان دنیا کے ترقی پزیر ممالک سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل گیا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی ایچ اے میں رہائشیوں کی جانب سے دیئے گئے عشائیے میں اہل علاقہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ سید مصطفی کمال نے مزید کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد فوڈ سیکیورٹی، ہیلتھ، ایجوکیشن اور انفراسٹرکچر کی تعمیر صوبائی معاملہ ہے۔ سندھ کے 1400 ارب روپے کے بجٹ میں 848 ارب روپے صوبے کو وفاق سے ملنے ہیں جو کہ گزشتہ سال سے 158 بلین زیادہ ہے۔

اس 158 بلین میں سے 93 بلین صرف تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادائیگی کی جائے گی۔ جو پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہیے اس کا 58 فیصد تنخواہوں میں جائے گا۔ پورے سندھ میں 5 لاکھ سرکاری ملازمین ہیں جنہیں اس اضافی بجٹ کا 58 فیصد سرکاری رشوت کے طور پر ملے گا اور بقیہ 5 کروڑ کی آبادی کو 42 فیصد ملے گا۔ اٹھارویں ترمیم کا فائدہ صرف ان 5 لاکھ ملازمین کو ہوا ہے۔

ڈویلپمنٹ اور سوشل ویلفیئر پر خرچ کرنے کے لیے سندھ کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ اگر تفصیلی معائنہ کریں تو سندھ کی 51 فیصد آمدنی تنخواہوں میں جا رہی ہے جبکہ پنجاب اپنی آمدنی کا صرف 33 فیصد حصہ تنخواہوں پر خرچ کر رہا ہے۔ جو 2.5 لاکھ لوگ سرکاری رشوت کے طور پر بھرتی کیئے گئے ہیں ان میں شہری علاقوں کا کوئی شخص شامل نہیں، ان چند لاکھ لوگوں کو رشوت دے کر پیپلز پارٹی پورے سندھ کو لوٹ رہی ہے۔

جن لوگوں کو بھاری رشوت کے عوض بھرتی کیا گیا ہے یہ لوگ اسے عوام سے وصول کر رہے ہیں نیز ان پر سندھ کا 51 فیصد بجٹ بھی خرچ ہو رہا ہے، حالیہ لاک ڈان میں سب نے دیکھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر کروڑوں روپے رشوت مارکیٹوں سے لی جاتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلی کو گزشتہ 13 سالوں میں 10242 ارب روپے وفاق سے ملے۔ اس کے باوجود اس سال 1850 بلین روپے میں سے لوکل گورنمنٹ کو 82 بلین روپے ڈسٹرکٹ اور شہروں کو دیئے جا رہے ہیں جو کہ کل بجٹ کا 10 فیصد ہے، 90 فیصد بجٹ وزیر اعلی اپنی صوابدید پر خرچ کریں گے۔

جبکہ اصولی طور پر ہونا اس کا الٹا چاہیے تھا۔ ڈسٹرکٹ کو ہیلتھ، ایجوکیشن، انفرااسٹرکچر، سالڈ ویسٹ تمام چیزوں کیلئے 60 سے 70 فیصد بجٹ ملنا چاہیے تھا۔ اس لیئے 70 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، کراچی جیسے شہر میں گزشتہ 13 سالوں میں 1 بوند اضافی پانی نہیں آیا جو آتا تھا وہ بھی لیکیجز اور ہائیڈرنٹس مافیا کی نظر ہو رہا ہے۔ پہلے لوگ روتے تھے کہ کوٹہ سسٹم ختم کرو اب روتے ہیں کہ کم از کم کوٹے کی نوکری تو دے دو، وہ بھی جعلی ڈومیسائل بنا کر بیچ دی جاتی ہے۔

سندھ میں 13 سالوں سے 1 نئی یونیورسٹی، اسپتال، کالج نہیں بنا۔ ٹرانسپورٹ کی ایک بس نہیں آ سکی۔ آج بلاول بھٹو زرداری وفاق پر غصہ ہیں کہ سندھ کو پانی اور اس کے حقوق نہیں دیئے جا رہے لیکن کراچی کو پانی کم دیئے جانے پر کوئی واویلا نہیں ہے، یہ سندھ حکومت کا تعصب ہے۔ جبکہ سندھ وفاق کو 70 فیصد کما کر دیتا ہے اس 70 فیصد کا 99 فیصد کراچی کما کر دیتا ہے۔

وزیر اعلی کو 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ وفاق سے ملے جن کے خرچ ہونے کے بعد سندھ دنیا میں رہنے کے لائق بدترین جگہوں میں شامل ہے۔ یہاں بچوں کو کتے کھا رہے ہیں اور اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود نہیں ہے۔ میڈیا پر 13 سالوں میں وزرا نے بیٹھ کر تاریخیں دی ہیں اور 200 کیا 2 نئی بسیں سڑکوں پر نہیں لا سکے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق 70 فیصد ریوینیو کمانے والے شہر کی ٹرانسپورٹ عالمی سطح پر بد ترین ہے۔

سندھ کے شہری علاقوں کیلئے کوئی جھوٹی اسکیم بھی لکھنا پسند نہیں کی گئی۔ ان تمام مسائل کا حل پی ایس پی پیش کر رہی ہے، آئین میں آرٹیکل 140 اے کی چار لائنوں کے بجائے تشریح کر کے پورے ایک مضمون کا اضافہ کیا جائے جس میں میئر کے ڈپارٹمنٹس اور اختیارات درج ہوں۔ جیسے وفاق سے صوبے کو این ایف سی ایوارڈ ملتا ہے اسی فارمولے کے تحت ڈسٹرکٹ کا پی ایف سی ایوارڈ وفاق صوبے کے بجائے سیدھا ڈسٹرکٹ کو دے اور اسے آئینی تحفظ دیا جائے تاکہ کوئی وڈیرانہ ذہنیت کا حامل وزیر اعلی عوام کو اپنے مزارعے نہ سمجھ سکے اور عوامی مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں۔