افریقہ، کلونیل ازم اور نیشنل ازم

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 25 جون 2021 13:40

افریقہ، کلونیل ازم اور نیشنل ازم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2021ء) اول یہاں سے غلاموں کو لے جا کر امریکا اور کریبیئن جزائر میں ان سے محنت و مشقت کرائی۔ پھر یورپی اقوام نے افریقی ملکوں پر قبضہ کر کے ان کی آبادی کا قتل عام کیا، ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور اس کے معدنی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ کی۔ کہا یہ گیا کہ وہ افریقی قوم کو 'مہذب بنانے‘ اور انہیں عیسائی بنا کر ان کی آخرت سدھارنے آئے ہیں۔

جن ملکوں نے افریقہ کے استحصال میں حصہ لیا ان میں پرتگال، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور بلجیم بھی شامل تھے۔ شمالی افریقہ کے ملکوں پر، جن میں تیونس اور جزائر شامل تھے، انہیں فرانس نے اپنی نوآبادیات بنایا۔ لیبیا پر اٹلی نے قبضہ کیا اور مراکش پر اسپین نے اپنا تسلط جمایا۔

(جاری ہے)

لہٰذا پورا افریقی براعظم سامراجی غلبے کی صورت میں مہذب ہونے کی بجائے پسماندگی کا شکار ہو کر مفلس اور غریب ہوتا چلا گیا۔

افریقہ کے ان ملکوں میں جہاں کی آب و ہوا یورپی شہریوں کے لیے قابل برداشت تھی، وہاں سے مقامی باشندوں کو بے دخل کر کے یا ان کا قتل عام کیا گیا اور وہاں سفید فام لوگوں کو آباد کیا گیا، جیسے روڈ یشیاء جو اب زمبابوے ہے، نمیبیا اور جنوبی افریقہ۔

جنوبی افریقہ میں پہلے ڈچ نوآباد کار آئے۔ جو یہودی یورپ میں تعصب کا شکار تھے، انہوں نے بھی یہاں پناہ لی۔

فرانس کے پروٹسٹنٹ بھی جلاوطنی کے بعد یہاں آ کر آباد ہوئے۔ جب یہاں سونے کی کانیں دریافت ہوئیں تو انگریز بھی چلے آئے۔ پہلے انگریزوں اور بوئرز (ڈچہ) میں جنگیں ہوئیں اور پھر صلاح کے بعد یہاں نسل پرست یا اپارتھائیڈ حکومت قائم ہوئی جس میں مقامی افراد کو کوئی حقوق نہیں تھے۔

لیکن اس سامراجی استحصال نے افریقہ میں نیشنل ازم کے جذبات کو ابھارا اور جگہ جگہ مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں۔

جیسے کینیا میں مائو مائو کی تحریک جس کا راہنما جومو جوموکنیائڈ تھا۔ روڈیشیا میں موگابے نے تحریک کی راہنمائی کی اور جنوبی افریقہ نیشنل افریکن کانگریس نے اپارتھائیڈ کے خلاف جد و جہد کا آغاز کیا۔ افریقہ کے بہت سے نوجوان جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ گئے تھے، انہوں نے واپسی پر نیشنل ازم کے جذبات سے متاثر ہو کر قومی آزادی کے لیے سیاسی جماعتیں بنائیں۔

اگرچہ سامراجی حکومتوں نے ان مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کی پوری کوشش کی، مثلاً کنسیا میں مائو مائو کے سات ہزار کارکنوں کو قتل کیا گیا اور آٹھ ہزار کو قید میں رکھا گیا، لیکن آزادی کے ان جذبات کو کچلا نہ جا سکا۔

سیاسی صورتحال میں اس وقت تبدیلی آئی جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی اقوام کمزور ہوئیں اور اس قابل نہ رہیں کہ افریقہ پر اپنے تسلط کو قائم رکھ سکیں۔

اس لیے ایک ایک کر کے افریقی ملک آزاد ہوئے اور وہاں نئی قیادت ابھری۔ جیسے گھانا میں کوامےنکروماہ، تنزانیہ میں جولیئس نیریرے اور کانگو میں پیٹریس لممبا۔ افریقہ کے نئے آزاد ملکوں کے رہنماؤں نے چونکہ مغربی تہذیب سے نقصانات اٹھائے تھے، اس لیے وہ یورپی تہذیب کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تھے۔

فرانٹز فینن نے اپنی کتاب Black Skin, White Mask میں لکھا ہے کہ افریقہ سے مغربی تہذیب کے تمام نشانوں اور آثاروں کو مٹا دیا جائے کیونکہ اسی صورت افریقی اپنا کلچر پیدا کریں گے۔

لہٰذا افریقی رہنماؤں نے اپنی سیاسی وابستگی سوشل ازم کے نظریے سے کر کے روس اور چین سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ خاص طور سے لممبا جو مارکسی دانشور تھا اور اپنے ملک میں سوشل ازم نافذ کر رہا تھا، اس پر امریکی صدر آئزنہوور نے اعلان کیا کہ لممبا کا خاتمہ ضروری ہے اور پھر اسے سی آئی اے کی سازش کے ذریعے قتل کرا دیا گیا۔

نکروما نے اگرچہ گھانا میں کئی عوامی منصوبے مکمل کرائے مگر اس کی آمرانہ حکومت کی وجہ سے ایک سازش کے ذریعے اس کی حکومت کا بھی تختہ الٹ دیا گیا۔

جب موگابے نے زمبابوے میں سفید فام لوگوں سے زمینیں چھین کر افریقیوں میں تقسیم کیں، تو یورپی ملکوں نے اس کے خلاف سخت بائیکاٹ کیا۔ نیلسن منڈیلا نے ستائیس سال جیل میں گزار کر جنوبی افریقہ سے اپارتھائیڈ کا خاتمہ کیا۔

افریقی رہنماؤں میں پین افریکن تحریک کی ابتداء بھی ہوئی تاکہ سارے افریقی ممالک متحد ہو کر اپنا دفاع کریں۔ افریقہ کے دانشوروں نے بھی علمی اور ادبی تحریک کو شروع کیا تاکہ بدلتے موصول میں افریقی تہذیب اور روایات کی بنیاد ڈالی جائے۔

مورخوں کو افریقہ کی تاریخ لکھنے میں اس وقت دشواری پیش آئی جب ان کے پاس ماضی کی دستاویزات اور مخطوطے نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے زبانی تاریخ سے مدد لی اور تاریخ نویسی میں یہ جدت کی کہ تاریخ کو حال سے شروع کر کے ماضی تک لے جایا جائے۔ لہٰذا اس وقت نتیجہ یہ ہے کہ افریقہ کی تاریخ افریقی مورخ لکھ رہے ہیں بلکہ یورپ اور امریکا کی جامعیات پر افیقی تحقیق ہو رہی ہے۔

امریکہ جہاں بلیک نیشنل ازم کے جذبات ہیں وہاں امریکی افریقی مفکرین اور دانشور امریکا کی بلیک کمیونٹی کو افریقہ سے جوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے سب سے بڑے حامی ڈبلیو ای وی ڈو بوئیس کا کہنا تھا کہ امریکی بلیکس اور افریقی بلیکس یہ دو روحیں ہیں، جو آپس میں ملتی ہیں۔ اگرچہ آزادی کے بعد سے افریقہ بحرانوں کا شکار رہا ہے لیکن آنے والی نسلوں میں جو سیاسی شعور پیدا ہوا ہے، اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان بحرانوں پرقابو پا کر افریقی براعظم کو تاریکی سے نکال کر روشنیوں میں لائیں گے۔