لاہور دھماکے میں زخمی ہونے والا وہ ''بہادر'' پولیس کانسٹیبل جسے اسپتال پہنچانے کے لیے کسی نے گاڑی نہیں روکی

پولیس کانسٹیبل رانا طاہر کا کندھا بری طرح چھلنی ہو گیا تھا اور چہرے پر بھی بال بیئرنگ وغیرہ لگے تھے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 26 جون 2021 15:31

لاہور دھماکے میں زخمی ہونے والا وہ ''بہادر'' پولیس کانسٹیبل جسے اسپتال ..
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26 جون 2021ء) : لاہور میں جوہر ٹاؤن کے علاقے بورڈ آ ف ریونیو سوسائٹی میں تین روز قبل بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 6 سالہ بچے سمیت 3 افراد جاں بحق جبکہ 8 خواتین ، 4 بچوں سمیت 24 افراد زخمی ہوئے تاہم اس واقعہ کے دوران ایک پولیس کانسٹیبل ایسے بھی موجود تھے جنہیں شدید زخمی حالت میں ہونے کے باوجود بھی کوئی اسپتال لے جانے کو تیار نہیں تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پولیس کانسٹیبل رانا طاہر تین یا چار روز قبل اس مقام پر ڈیوٹی کے لیے آئے تھے۔ اس علاقے میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ تھی۔ تاہم ان کے اس گھر کی طرف جانے والے راستوں پر کچھ پولیس اہلکار تعینات تھے ور رانا طاہر ان میں سے ایک تھے اور ڈیوٹی پر مامور تھے جب کار دھماکے سے پھٹ گئی۔

(جاری ہے)

رانا طاہر براہِ راست اس کی زد میں آئے۔ اس وقت وہاں موجود ان کے ساتھی ان کی مدد کو لپکے تا کہ ان کو فوری طبی امداد فراہم کی جائے۔ لیکن رانا طاہر نے ان کو روک کر کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔ دھماکہ ہوا ہے تم اس طرف جاؤ۔ دھماکے کی زد میں آنے سے ان کا کندھا بری طرح چھلنی ہو گیا تھا اور چہرے پر بھی بال بیئرنگ وغیرہ لگے تھے۔ رانا طاہر نے ہمت مجتمع کی اور خود ایک جگہ بیٹھ گئے۔

وہیں پاس ہی پانی کا ایک کولر پڑا ہوتا تھا۔ اس کولر میں سے پانی کا ایک گلاس بھر کر خود ہی پانی پیا۔ رانا طاہر نے یہ تمام تر باتیں خود رانا طاہر نے خود اپنی اہلیہ ثمرانا بی بی کو اُس وقت بتائیں جب ابتدائی طبی امداد کے بعد وہ ہوش میں آئے اور ڈاکٹرز نے کہا کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ لاہور کے جناح اسپتال کے ایک وارڈ کے باہر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کی اہلیہ ثمرانا بی بی نے بتایا رانا طاہر اسی زخمی حالت میں خود چل کر اسپتال پہنچے ۔

دھماکے کے بعد اٹھتے گرد و غبار اور افرا تفری کے دوران ان کے ایک ساتھی نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو فوری اسپتال پہنچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر کسی گاڑی میں انہیں قریبی جناح اسپتال پہنچایا جا سکے تو بہتر ہو گا۔ جناح اسپتال اس مقام سے محض ایک سے دو کلومیڑ کے فاصلے پر تھا۔ تاہم جب رانا طاہر نے خود سے اٹھ باہر مرکزی شاہراہ پر آئے اور گزرتی گاڑیوں کو رکنے اور اسپتال پہنچانے کی درخواست کی، تو کوئی بھی انہیں اسپتال پہنچانے کے لیے نہیں رُکا۔

رانا طاہر کی اہلیہ نے کہا کہ کافی کوشش کے بعد رانا طاہر کو ایک گاڑی میں لفٹ ملی جنہوں نے انہیں جناح اسپتال پہنچایا۔ وہ اس وقت بھی مکمل طور پر ہوش و حواس میں تھے اور خود چل کر ایمرجنسی میں آئے تھے اور ڈاکٹروں کو بتایا کہ انہیں کہاں زخم آئے تھے۔ ڈاکٹروں نے آپریشن کر کے ان کے جسم میں پیوست بال بیئرنگ اور لوہے کے ٹکڑے نکال دیے تھے۔ تاہم ابھی ان کے کندھے کے مزید آپریشن ہونا باقی تھے جس کے بعد وہ اس کو حرکت دینے کے قابل ہو پائیں گے البتہ مکمل بحالی کے لیے ابھی کچھ وقت لگے گا۔

ڈاکٹروں نے ہدایات دی تھیں کہ رانا طاہر سے اس واقعہ کے حوالے سے بات نہ کی جائے کیونکہ اس طرح وہ ذہنی صدمے کا شکار ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے شوہر بہت بہادر ہیں۔ سب کے سامنے ہے کہ ان کے زخموں کی نوعیت کیا تھی۔ اس حالت میں خود کو دیکھ کر بھی اس طرح ہمت مجتمع رکھنا اور خود اسپتال تک پہنچنا، بڑی بہادری کی بات تھی۔

انہوں نے کہا کہ چاہے کوئی کتنا بھی بہادر ہو جب اس کو ایسی حالت میں اپنے بچوں کا خیال آئے تو دل دہل جاتا ہے۔ ہماری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ انہوں نے رانا طاہر کی محکمہ پولیس میں نوکری کے حوالے سے بتایا کہ وہ گزشتہ 14 برس سے پولیس کی نوکری کر رہے ہیں۔ میں شکر کرتی ہوں کہ میرے شوہر میرے اور میرے بچوں کے ساتھ ہیں ، ہمیں صرف دعاؤں کی ضرورت ہے۔

بی بی سی کے مطابق پولیس کانسٹیبل رانا طاہر لاہور کے مضافات میں ضلع ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں نگر پکا کے رہائشی تھے اور روز وہیں سے نوکری کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ پولیس لائن میں تعینات تھے تاہم حال ہی میں انھوں نے اپنی ڈیوٹی دھماکے کے مقام پر لگوائی تھی کیونکہ یہ جگہ ان کے گھر سے قریب تھی۔ ثمرانا بی بی نے محکمہ پولیس سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور پولیس کا افسران اور محکمے نے مجھے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی اور مسلسل میرے ساتھ رابطے میں بھی رہے۔