وزیر اعظم 50لاکھ گھر بنانے کی بات کر رہے ہیں دوسری طرف پاکستان کوارٹرز کے لوگوں سے آشیانے خالی کرانے کی کوششیں جاری ہیں، کلیم الحق

لینڈ ڈیولپرز کی حرص کی وجہ سے لوگوں نے ا س زمین پر اپنی نظریں گاڑ رکھی ہیں۔ہم کراچی کے وارث ہیں ، ان گھروں میں پاکستان بنانے والوں کی اولادیں رہتی ہیں ریاست کی زمہ داری ہے کہ جن کے پاس چھت نہیں انہیں چھت مہیا کرے یہ ریاست کا کیسا قدم ہے کہ جن کے پاس چھت ہے ان کی چھت چھینی جا رہی ہے

اتوار 27 جون 2021 20:35

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2021ء) وزیر اعظم پاکستان ایک طرف 50 لاکھ گھر بنانے کی بات کر رہے ہیں اوردوسری طرف پاکستان کوارٹرز کے لوگوں سے آشیانے خالی کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ لینڈ ڈیولپرز کی حرص کی وجہ سے لوگوں نے ا س زمین پر اپنی نظریں گاڑ رکھی ہیں۔ہم کراچی کے وارث ہیں ان گھروں میں پاکستان بنانے والوں کی اولادیں رہتی ہیں اپنے آباو اجداد کی قبریں چھوڑ کرہم لوگ پاکستان آئے تھے جس کے عوض انہیں یہ دو کمروں کا گھر دیا گیا تھا جہاں ان کی تین نسلیں جوان ہو چکی ہیں اب غریب عوام کی چھتیں چھینی جا رہی ہیں ۔

ریاست کی زمہ داری ہے کہ جن کے پاس چھت نہیں انہیں چھت مہیا کرے یہ ریاست کا کیسا قدم ہے کہ جن کے پاس چھت ہے ان کی چھت چھینی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار پاکستان کوارٹرز کے رہائشی، جماعت اسلامی پاکستان کوارٹر پبلک ایڈ کمیٹی کے صدر،سابق یوسی نائب ناظم و معروف سما جی رہنما کلیم الحق عثمانی اور پاکستان کوارٹر گرینڈ الائنس کے رہنماوں نے صحافیوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

کلیم الحق عثمانی نے کہا کہ پاکستان کوارٹرز کی زمین اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے بجائے سندھ حکومت کی ملکیت ہے،مارٹن کواٹرز ، کلیٹن کواٹرز ، جہانگیر ویسٹ ، جہانگیر ایسٹ ، جیل کواٹرز اور پاکستا ن کواٹرز کے ان لاکھوں افراد کے بنیادی حق کا تحفظ کیا جائے اور ان کو کسی بھی صورت یہاں سے بے دخل نہ کیا جائے ، جس طرح اور بہت سی آبادیوں کو لیز اور مالکانہ حقوق دیے گئے ہیں ان کوارٹرز میں رہائش پذیر افراد کو بھی فوری طور پر مالکانہ حقوق اور لیز دی جائے چونکہ یہ زمین بنیادی طور پر صوبہ سندھ کی ملکیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف ادوار میں وزرائے اعظم اور حکومت کی جانب سے مکینوں کے حق میں کیے گئے فیصلوں اور یقین دہانیوں کے مطابق اس مسئلہ کا حل کرے پاکستان کے ابتدائی ایام میں ہجرت کر کے کراچی آنے والے سرکاری ملازمین کو مارٹن کواٹرز ، کلیٹن کواٹرز ، جہانگیر ویسٹ ، جہانگیر ایسٹ ، جیل کواٹرز اور پاکستا ن کواٹرز اور کچھ دیگر مقامات پر بسایا گیا تھا ، ان ملازمین کے انتقال کے بعد ان کی بیوائیں اور بچے رہائش پذیر ہیں۔

70سال بعد ان لوگوں کو ملکیتی حقوق دینے کے بجائے منسٹری آف ہاسنگ اینڈ ورکس کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ان کو بے دخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ اس زمین کے مختلف ٹکڑوں کی لیز بہت سی آبادیوں اور افراد کو دی جاچکی ہے اور یہاں رہائش پذیر افراد کا حق ملکیت بھی حکومت تسلیم کرچکی ہے جس کی باقاعدہ دستاویز بھی جاری کی گئی ہیں۔اصولی طور پر یہ زمین بورڈ آف ریونیوکی ملکیت ہے اور اس حساب سے اس اراضی کا قبضہ حکومت سندھ کو لینا چاہیئے تھا۔

پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کی اراضی پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ کی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس حوالے سے کوئی دستاویزات موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کوارٹرز کے علاقہ مکینوں کا پاکستان بنانے میں اہم کردار ہے۔ پاکستان کوارٹرز مارٹن کوارٹرز پاکستان کوارٹرز کیمکینوں کو 1970 سے راگ دیا جا رہا ہے کہ ان کو اسی جگہ آبادرکھا جائے گا،رہائشیوں کے پاس مالکانہ حقوق کے سرٹیفیکٹ موجود ہیں۔

1947میں قائم ہونیوالے کوارٹرز خالی نہ کروائے جائیں۔سندھ حکومت وفاقی حکومت سے رابطہ کرے اور مارٹن کوارٹرز ،کلیٹن کوارٹرز ، جہانگیر روڈ اور پاکستان کوارٹرز کے لاکھوں مکینوں کو مالکانہ حقوق فراہم کرے۔علاقوں میں مکانات زبردستی خالی کرانے کی کوششوں کی روک تھام کیلئے احکامات صادر فرمائیں اسکے علاوہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے پوچھا جائے کہ وہ مالکانہ حقوق کے حامل رہائشیوں سے کس قانون کے تحت مکانات خالی کروا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ پچاس برس سے زاید عرصے سے یہاں آباد ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ ماہانہ کرایہ، بجلی و گیس اور پانی کے بل جمع کرا رہے ہیں۔ مکینوں کو کرائے کی رقم سرکاری اکانٹ میں جمع کرانا ہوتی ہے، جس کی ہمارے پاس رسیدیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں اسپورٹس کلب، مذہبی سوسائٹیاں، فلاحی تنظیمیں، اسکول، مساجد اور امام بارگاہیں بھی قائم ہیں جبکہ یہاں معاشی سرگرمیاں بھی خوب ہوتی ہیں، یہاں ہر چیز ہے جو اس علاقے کے لوگوں کو آپس میں باندھے رکھتی ہے۔

لیکن اب اچانک ان کوارٹرز کے رہائشیوں کو بغیر کوئی معاوضہ یا متبادل رہائش دیے مکان خالی کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے جو ان کے لیے اب گھر کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔پاکستان کوارٹرز وہ علاقہ ہے جہاں ہم پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کوارٹرز اور اس طرز کے کراچی میں کئی سرکاری کوارٹرز ہیں جو قائدِ اعظم محمد علی جناح کے احکامات کے پیش نظر متروکہ املاک پر تعمیر کیئے گئے تھے جہاں قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے سرکاری ملازمین کو آباد کیا گیا تھا۔

ان میں پاکستان کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز، جہانگیر کوارٹرز وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کواٹرز کی زمینوں کے بارے میں یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ زمین کسی بھی سرکاری ادارے یا وفاقی حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ یہ متروکہ املاک ہے۔ جبکہ ان سرکاری کوارٹرز میں رہائش پذیر لوگ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اس کا باقاعدہ کرایہ بھی ادا کرتے ہیں اور کرایہ کی مد میں پیسے جمع کرنے کے باوجود اس کی مرمت رنگ روغن کا کام بھی مکین خود کراتے رہے ہیں ۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار میں یہاں کے مکینوں کو باور کرایا تھا کہ یہ آپ کی ملکیت ہے اور جلد اسے ریگولرائز کردیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ سن 2007 کے دورِ حکومت میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے ان کوارٹرز میں رہنے والوں کے پاس اسٹینٹ دپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ ملکیتی سرٹیفکیٹ اور دیگر قانونی دستاویزات بھی موجود ہیں ۔

اس سرٹیفکیٹ کے اجرا کے بعد یہاں کے مکینوں نے اپنی تمام جمع پونجی ان خستہ حال کوارٹرز کی از سر نو نعمیر اور مرمت پر لگادی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہا ں کے لوگوں نے موجودہ حکومتی پارٹی پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں ووٹ دیا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کے مسائل کو حل کریں ورنہ یہاں کے لوگوں میں مایوسی مزید بڑھے گی لوگ سوچتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے کراچی سے نشست جیتی ، صدر ِ پاکستان کراچی سے گورنر سندھ کراچی سے اور نئے پاکستان میں ہی پاکستان کوارٹرز کے لوگوں سے یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر سن 1972 کا جاری کردہ صدارتی حکم کی تشریح میں 1984 کے سپریم کورٹ کے آرڈر کا بغور مطالعہ کرلیا جائے تو اس مسئلہ کا حل نکل آئے گا جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ، بیواں اور ان کے بچوں کی ری ہیبلی ٹیشن کے لیے ان کے رہائشی مکانوں کی لیز دے کر مالکانہ حقوق دئیے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ مارٹن کوارٹرز ،کلیٹن کوارٹرز ، جہانگیر روڈ اور پاکستان کوارٹرز کو مالکانہ حقوق دیئے جائیں، کیونکہ ہم ہی حقیقی مالک ہیں۔

پاکستان کوارٹرز بانیان پاکستان کی اولادوں سے حق تلفی نہ کی جائے ۔ کرپٹ افسر شاہی عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹر خالی کرانے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ 80 ایکڑ قیمتی اراضی پر قبضے کی پلاننگ ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ ڈیڑھ لاکھ مکینوں کا مسلئہ حل ہوسکے۔

پاکستان کوارٹرز کے رہائشیوں اور گرینڈ الائنس کے رہنماوں نے وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آزاد زمین جو سندھ حکومت کی ملکیت ہے اس کو لیز کر کہ ہم مکینوں کو مالکانہ حقوق دیے جائے تاکہ یہاں کے رہائشی اپنے اہل خانہ کے ساتھ سکون کی زندگی گزار سکے۔امید ہے کہ سندھ حکومت پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کے ساتھ انصاف کرے گی اور مالکانہ حقوق دینے میں اپنا کرردار ادا کرے گی۔