خواتین کے لئے ہیلپ لائن، کمپلینٹ سیل اور ڈے کیئرسینٹر ز کا دائرہ کار سندھ کے دیگر اضلاع میں پھیلایا جارہا ہے، شہلا رضا

ہم انتہائی قلیل اسٹاف کے ساتھ دو دو افراد کو بٹھا کر چار ڈائرکٹوریٹ چلا رہے ہیں المیہ ہے سندھ میں پانچ سال سے بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے پینشنرزکی تعدادتنخواہ دار ملازمین سے زیادہ ہوگئی ، ہمیں محکموں کو چلانے کے لیے لوگو ں کی ضرورت ہے لیکن ہم نئی بھرتیاں نہیں کرسکتے،سندھ پبلک سروس کمیشن بھی تحلیل ہے،صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں

پیر 28 جون 2021 21:14

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 جون2021ء) صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں سندھ سیدہ شہلا رضا نے کہا ہے کہ ہم نے خواتین کے لئے ہیلپ لائن، کمپلینٹ Zسیل جبکہ نوکری پیشہ خواتین کے بچوں کی بہتر دیکھ بھال کے لیے ڈے کیئرسینٹربھی بنائے ہیں جس میں بچوں کو صحت مند ماحول کے ساتھ ساتھ انھیں اچھی نگہداشت بھی فراہم کی جائے گی۔ اب اس کا دائرہ کار لاڑکانہ ،سانگھڑ، شکارپور، مٹیاری ، ٹنڈومحمد خان، جامشورو اور سندھ کے دیگر اضلاع میں پھیلایا جارہا ہے جبکہ ہم انتہائی قلیل اسٹاف کے ساتھ دو دو افراد کو بٹھا کر چار ڈائرکٹوریٹ چلا رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیکریٹری محکمہ ترقی نسواں سندھ انجم اقبال جمانی اور ڈائریکٹر مہیش لال دودانی بھی انکے ہمراہ تھے۔

(جاری ہے)

سیدہ شہلا رضا نے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے کہ سندھ میں پانچ سال سے بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے پینشنرزکی تعدادتنخواہ دار ملازمین سے زیادہ ہوگئی ہے، ہمیں محکموں کو چلانے کے لیے لوگو ں کی ضرورت ہے لیکن ہم نئی بھرتیاں نہیں کرسکتے جبکہ اس وقت سندھ پبلک سروس کمیشن بھی تحلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کوپہلے الگ کردیا گیا تھا جبکہ دارالامان پہلے سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کے پاس تھا ، اب کچھ عرصہ قبل ہی دارالامان و سیف ہاو سز محکمہ ترقی نسواں کے سپرد کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیف ہائو س مصیبت میں پہنچنے والی خواتین کی فوری مدد کیلئے کام کرتے ہیں جبکہ دارالامان میں عدالتی احکامات پر خواتین کورکھاجاتاہے۔

انہوں نے کہا کہ جو فنڈ استعمال نہیں ہوتا وہ محکمہ خزانہ کو واپس چلا جاتا ہے ، گزشتہ دنوں کچھ اخبارات میں وومن کمپلیکس کراچی سے متعلق حقائق کے برعکس خبریں شائع ہوئی تھیں کہ وہاں کا فنڈ ضائع ہوگیا جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وومن کمپلیکس کے لیے ہمیں شاہنواز شر گوٹھ میں موجود گرلز کالج میں دو ہزار گز پر مشتمل زمین الاٹ کی گئی ہے جبکہ وہاں کے مکینوں کا پہلے ہی محکمہ تعلیم کے ساتھ عدالتی معاملہ چل رہا ہے اور مکینوں نے اس معاملے پر اسٹے آرڈر لیا ہوا ہے، اس سلسلے میں ہم نے آ ئی جی سندھ کو بھی آگاہ کیا ہے جس کے بعد انکی ذمہ داری ہے کے معاملے کے حل کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے باعث بہت سے کام تعطل کا شکار ہوئے تاہم اس کے باوجود ہم نے خواتین کو آن لائن ٹریننگز دیں اور ہم نے 350خواتین ماڑیپوربلدیہ خیرپور و دیگرعلاقوں سے منتخب کی ہیں جنھیںتریت دی جائیگی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی بی ٹیم ایم کیوایم کواسمبلی اجلاس میں حکومتی اراکین کوتقاریرنہ کرنے دینے کاٹاسک دیا گیا تھا اور جس طرح کا وہاں ماحول بنا رہا وہ سب نے دیکھاجبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارکٹ موشن جمع نہیں کروائے گئے اس کے برعکس پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تعداد ہم سے زیادہ ہے لہذابجٹ بعد میں پیش کیاگیا جبکہ منظورپہلے ہی کرلیا گیا، یہ سندھ ہے یہاں ایسے نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اس بار بجٹ بڑھایا گیا ہے، اس وقت دس اسکیمیں جاری ہیں، ای کامرس اپرٹیونٹی فاروومن کی نئی اسکیم منظورکی گئی ہے جبکہ ریو نیو اورکیپیٹل سائیڈکی اسکیمزبھی منظورہونگی اور اس سال ہمارا بجٹ سوفیصد ہمیں ملنا ہے، ہم میرپورخاص، نوابشاہ اورجیکب آباد کے دارالامان بھی جلد شروع کریں گے، نوابشاہ میں ہمارے کمپلیکس میں کافی عرصے سے ڈی آئی جی آفس قائم ہے جس کو خالی کرنے کے لیے ہم نے خط لکھ دیا ہے اور امید ہے کہ یہ معاملہ بھی جلد نمٹالیا جائے گا۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے دیے گئے حالیہ انٹرویو کے متنازعہ حصے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سیدہ شہلا رضا نے کہا کہ خواتین کے ساتھ جب بھی کوئی زیادتی ہوتی ہے توپورا معاشرہ جج بن جاتا ہے کہ شاید خاتون کا ہی کردار خراب تھا کیوں کہ باقی خواتین کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا، ضیاء الحق نے حدود آرڈیننس کا کالا قانون بنایا تھا کہ ریپ کے چارگواہ ہونے چاہیئں جبکہ ایک نابینا لڑکی کو جنسی درندگی کا نشانا بنایا گیا تھا تو وہ مجرمان کی کیسے شناخت کرتی کیاکوئی گواہ رکھ کرریپ کرتاہی مختاراں مائی کوبھی دیر سے انصاف ملا،خانیوال میں چارسال کی بچی کے ساتھ ریپ ہواہے جس کا مجرم اسکا سگا چچا نکلا، اسی معاشرے میں کفن میں لپٹی مردہ خواتین تک کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ درندگی کا یہ عمل ایک سوچ ہے جس کو ہم خواتین کے لباس سے جوڑ رہے ہیںجوکہ افسوسناک صورتحال ہے۔معروف ٹک ٹاکر حریم شاہ کی شادی سے متعلق خبر پر انہوں نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ کس سے شادی ہوئی ہے لیکن شادی ہوئی ہے تویہ شرعی بات ہے لہذا ہمیں حق نہیں پہنچتاہم اس پربات کریں۔انہوں نے گزشتہ دنوں حیدرآباد کے علاقے اسلام آباد میں پی ایم ٹی پھٹنے اور تیل سے جھلس کر انسانی جانوں کے ضیاع اور زخمی ہونے کو حیسکو انتظامیہ کی نااہلی قرار دیا اور واقعے کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ حیسکو بجلی تودیتا نہیں ہے حیدرآباد سمیت اندرون سندھ میں بائیس گھنٹوں تک کی لوڈ شیڈنگ ہے جبکہ اس طرح کے واقعات بھی روز کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی حادثے کے نتیجے میں ہم بغیر تحقیق کے کسی پر بھی ملبہ ڈال دیتے ہیں، حالیہ ٹرین حادثہ بھی اسکی تازہ مثال ~ہے کہ جہاں سندھ کے آفیسر پرسارا ملبہ ڈال دیاگیاتھا جبکہ بعد میں اس کے خطوط سامنے آئے جس میں خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کوئی اپنے گھرسے نکلے اور واپس نہ پہنچے، حیسکو بھی وفاقی ادارہ ہے ، وفاقی حکومت سیاسی انتقام کے باعث اپنا کام درست سمت میں نہیں کررہی ہے اور غفلت کاشکارہے۔#