قومی اسمبلی ، شاہ محمو قریشی اور بلاول بھٹو زر داری ایک دوسرے پر برس پڑے ، سنگین الزامات لگا دیئے

کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ نے سندھ میں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، شاہ محمود قریشی کی بلاول پر تنقید اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا، وزیر خارجہ جتنا ہم ملتان کے فاضل رکن کو جانتے ہیں اتنا تو آپ بھی نہیں جانتے، ابھی عمران خان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کیا چیز ہیں، بلاول بھٹو زر داری بات مکمل کرنے دیں آپ اپنا آرڈر لے کر آئیں ورنہ میں یہاں ہوں ،عمران خان آئیں اور تقریر کریں میں دیکھتا ہوں کہ کیسے تقریر کرتے ہیں وزیراعظم کو آئی ایس آئی کو کہنا چاہیے کہ وہ شاہ محمود کے فون ٹیپ کریں، جب وہ ہمارے وزیر خارجہ تھے تو دنیا میں مہم چلائی کہ گیلانی کو نہیں مجھے وزیراعظم بنادیں، چیئر مین پیپلز پارٹی کا جواب الجواب ان کے بابا کو جانتا ہوں، جب یہ چھوٹے سے تھے تب سے جانتا ہوں، بچے کو پرچیاں پڑھا دیتے ہیں ، بچہ آٹو پر چل پڑتا ہے، ابھی بچے کچھ وقت لگے گا، وزیر خارجہ کا جواب کم از کم گیلانی مک مکا کا اپوزیشن لیڈر نہ بنایا ہوتا، گیلانی سرکاری ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر بنے ہیں، بلاول اپنے گریبان میں جھانکیں، شاہ محمود قریشی

بدھ 30 جون 2021 16:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2021ء) قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بلاول بھٹو ایک دوسرے پر برس پڑے ، دونوں رہنمائوں کے خطاب کے دور ان اپوزیشن اور حکومتی اراکین ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی اور ویڈیو بناتے رہے ،پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر قومی اسمبلی پر پر الزام لگایا ہے کہ وہ دھاندلی نہ کرتے تو وزیراعظم کے پاس بجٹ منظوری کیلئے 172 ووٹ نہیں تھے ،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ڈکٹیٹ کر نے کی بات پر برہم ہوگئے اور کہاہے کہ مجھے ڈکٹیٹ نہ کریں، کسی میں جرات نہیں کہ مجھے ڈکٹیٹ کرے۔

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے متوقع خطاب سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مابین گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔

(جاری ہے)

اپنی تقریر میں چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر حکومت بجٹ پر ووٹنگ میں دھاندلی نہیں کرتی تو دنیا دیکھتی کہ وزیراعظم کے پاس 172 ووٹس بھی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ پر قوم کے 172 نمائندوں نے ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیااور جب ووٹ کی عزت کی بات آئے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے عزت ملنی چاہیے، یکطرفہ عزت نہیں ہوسکتی۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ اگر آپ دھاندلی نہیں کرتے تو وزیر اعظم عمران خان کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک کے حق میں 172 ووٹ نہیں تھے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر آپ وقت نہ دیتے تو حکومت کے پاس فنانس ترمیمی بل کی تحریک منظور کرنے میں کیلئے ان کے پاس مطلوبہ تعداد نہ ہوتی لیکن اسپیکر صاحب! آپ نے ہم سے ہمارا حق چھینا ہے۔انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ اپوزیشن کی ترمیم کو سننے بغیر ہی مسترد کردیا جائے اور وہ بھی ایک غیر منتخب شخص مسترد کردے، حکومت کو ترمیم مسترد کرنے کا جواز پیش کرنا چاہیے تھا۔

بلاول بھٹو زر داری نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے نہ صرف اس مرتبہ بلکہ مختلف مراحل میں پارلیمنٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بجٹ سیشن ہر پاکستانی کیلیے باعث شرمندگی ہے۔انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن کے چیلنج پر دو مرتبہ وائس آف ووٹ لے سکتا ہے لیکن تیسری مرتبہ تو ووٹوں کی گنتی ہی نہیں کی گئی، یہ جو ووٹ لیے گئے ہیں معاشی تباہی کا باعث بنیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر آپ گنتی کروا دیتے تو اپوزیشن کے ریکارڈ میں آجاتا اور آخری مرتبہ ووٹ کی گنتی کو چیلنج کرنے کیلئے مجھے اٹھنا تھا تاہم بدقسمتی سے آپ چلے گئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا کام ہی بجٹ کی مذمت کرنا ہے لیکن آپ نے ہمارے حق کا معمولی سا بھی تحفظ نہیں کیا کیونکہ ہم زیادہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنے منصب کے تقدس کو غیر جانبدار رکھیں۔

افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزیر خارجہ نے بتایا اس سلسلے میں اعتماد میں لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سیکیورٹی اور اہم اپوزیشن رہنماؤں کو یکم جولائی کومدعو کیا گیا ہے جہاں انہیں اعتماد میں لیا جائیگا۔اجلا س کے دور ان سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وضاحت کی کہ فنانس بل تمام قواعد پورے کرکے پاس کیا گیا،تحریک کے حق میں 172 اور مخالفت میں 138 ووٹ اے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قواعد کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ محمود پریشی نے کہاکہ اپوزیشن اراکین نے یکے بعد دیگرے اسپیکر کی ذات کو نشانہ بنایا، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے جس پر ان کے چیمبر میں ملاقات کی جاتی ہے اسے تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، کیا سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکائونٹس کمیٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔انہوںنے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو ان کے لیے مختص وقت سے زیادہ بولنے کا موقع دیا گیا ،سندھ میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ جو یہاں مطالبے کرتے ہیں بہتر ہوتا کہ ہی بتاتے کہ سندھ میں یہ مثال قائم کی گئی، آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کٹ موشنز پیش کیے جن پر انہیں بات کرنے کا مکمل موقع دیا گیا اور جواب دیا گیا، ووٹ ہوا اب اس میں شکست ہوگئی تو اسے تسلیم کرلیں یہ بھی پارلیمانی روایت ہے۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں تو روایت تو یہ ہے کہ جب انہیں بات کرنے کا موقع دیا گیا تو بات کا جواب لیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ کونسی پارلیمانی روایت کی بات کرتے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غل غپاڑہ شور شرابا کر کے ہمیں دبا دیں گے تو یہ نہیں ہوگا، اس ایوان کے ماحول کو بگاڑنے کی ابتدا اپوزیشن نے کی اگر وہ عمران خان کو اپنی تقریر کرنے دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر آپ روایات پر عمل اور قواعد کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں تااہم اگر آپ ہمیں دبانا چاہیں گے تو ہم نہیں دبیں گے۔شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دور ان اپوزیشن نے لوٹے لوٹے کے نعرے لگا تے ہوئے شدید شورشرابہ اور احتجاج کیا اس دور ان کئی وزراء پابندی کے باجود ایوان مین موبائل پر آغاء رفیع اللہ کی وڈیوز بناتے رہے ۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قواعد کی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ آج اپوزیشن اراکین نے یکے بعد دیگرے اسپیکر کی ذات کو نشانہ بنایا، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے جس پر ان کے چیمبر میں ملاقات کی جاتی ہے اسے تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔شاہ محمود قریشی نے چیئرمین پی پی پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں آپ، سندھ میں جہاں آپ کی حکومت ہے وہاں قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا، سندھ کا وزیر خزانہ اختتامی تقریر کیے بغیر رخصت ہوجاتا ہے، کیا سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاونٹس کمیٹ کا چیئرمین بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہم سے تقاضے کیے جاتے ہیں، جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے جبکہ سندھ میں قائمہ کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔انہوںنے کہاکہ بجٹ پیش کرنے کے بعد اپوزیشن کو ان کے لیے مختص وقت سے زیادہ بولنے کا موقع دیا گیا جبکہ سندھ میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ جو یہاں مطالبے کرتے ہیں بہتر ہوتا کہ ہی بتاتے کہ سندھ میں یہ مثال قائم کی گئی، آئینہ دکھاتے ہیں، دیکھتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے کٹ موشنز پیش کیے جن پر انہیں بات کرنے کا مکمل موقع دیا گیا اور جواب دیا گیا، ووٹ ہوا اب اس میں شکست ہوگئی تو اسے تسلیم کرلیں یہ بھی پارلیمانی روایت ہے۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی پی پی کن پارلیمانی روایات کی بات کرتے ہیں تو روایت تو یہ ہے کہ جب انہیں بات کرنے کا موقع دیا گیا تو بات کا جواب لیں۔ انہوںنے کہ اکہ یہ کونسی پارلیمانی روایت کی بات کرتے ہیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غل غپاڑہ شور شرابا کر کے ہمیں دبا دیں گے تو یہ نہیں ہوگا، اس ایوان کے ماحول کو بگاڑنے کی ابتدا اپوزیشن نے کی اگر وہ عمران خان کو اپنی تقریر کرنے دیتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان کو بات نہ کرنے دی گئی تو نہ بلاول اور نہ ہی شہباز شریف بات کریں گے، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں چلے گا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر آپ روایات پر عمل اور قواعد کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں لیکن اگر آپ ہمیں دبانا چاہیں گے تو ہم نہیں دبیں گے۔شاہ محمود قریشی کی تقریر کے بعد بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ انہیں ذاتی وضاحت کا موقع دیا جائے اور اجازت ملنے پر کہا کہ جہاں جہاں میرا نام لیا گیا ہے میں جواب دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ جتنا ہم ملتان کے فاضل رکن کو جانتے ہیں اتنا تو آپ بھی نہیں جانتے، ابھی عمران خان کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کیا چیز ہیں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ انہوں نے بار بار میرا نام لیا لیکن میں انہیں اتنی اہمیت نہیں دیتا کہ ان کا نام لوں اور اگر وہ وزیراعظم کی تقریر کروانا چاہتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ احترام کے ساتھ میری بات سنتے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے پاس لودھراں سے بہت سی خبریں آرہی ہیں، مجھے بات مکمل کرنیدیں آپ اپنا آرڈر لے کر آئیں ورنہ میں یہاں ہوں عمران خان یہاں آئیں اور تقریر کریں میں دیکھتا ہوں کہ کیسیتقریر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اراکین کو قواعد کی پاسداری کرنی پڑے گی ورنہ یہ ایوان نہیں چلے گا، فاضل رکن ملتان نے اس پارٹی پر تنقید کی جس نے انہیں وزیر خزانہ، صدر پنجاب بنایا تھا، آپ خان صاحب کو بتائیں کہ اس شخص کو پہچانیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ میں انہیں بچپن سے دیکھتے ہوئے آرہا ہوں میں نے انہیں جیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا ہے، اپنی وزارت بچانے کے لیے میں نے اس رکن کو 'اگلی باری پھر زرداری' کا نعرہ لگاتے دیکھا ہے اور اب آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کے وزیراعظم کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ وزیر خارجہ ہیں جو کشمیر کے سودے میں ملوث ہیں، ایسے وقت میں کہ جب افغانستان سے امریکی انخلا ہورہا ہیتو پاکستان کی اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہمارے پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات اور ہمارا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور وزیر خارجہ کو یہاں تقریر کرنے کے بجائے وزیراعظم کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی فون کال کا بندوبست کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کیلیے بے عزتی اور ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ ہمارا وزیراعظم اتنی اہمیت ہی نہیں رکھتا کہ اسے ایک فون کال کی جائے، وزیر خارجہ کو اپنی آواز سننے کا اتنا شوق ہے کہ وہ اس جماعت اور حکومت کے لیے خطرہ بننے والے ہیں۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ فاضل رکن نے جنوبی پنجاب کے اتحاد کے ساتھ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلائی تھی جس میں صوبہ دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ سیکریٹریٹ دے کر اعلان کرچکے ہیں وہ آئندہ مرتبہ انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے کیوں کہ نہ وہ صوبہ دے سکیں نہ اپنے علاقے میں چہرہ دکھانے کے قابل ہیں۔

انہوںنے کہاکہ صوبہ سندھ سے متعلق بات کی گئی تو اس سے متعلق جو بات ہوتی ہے وہ سندھ اسمبلی میں ہوگی، جب یہاں کے بندروں نے حملہ کرنے کی کوشش کی تو وہاں کے اسپیکر نے کچھ اراکین پر پابندی لگادی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ دلچسپی نہیں رکھتے۔انہوںنے کہاکہ جو کارٹونز آپ لے کر ائیں ہیں انہوں نے تاریخ رقم کی ہے ایک کٹھ پتلی نے ایک کٹ موش پیش نہیں کیا گیا جو ان کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں درخواست کرتا ہوں کہ وزیراعظم کو آئی ایس آئی کو کہنا چاہیے کہ شاہ محمود قریشی کا فون ٹیپ کریں کیوں کہ یہ جب ہمارے وزیر خارجہ تھے تو دنیا میں مہم چلاتے تھے کہ یوسف رضا گیلانی کی جگہ انہیں وزیراعظم بنادیا جائے، اسی وجہ سے انہیں وزارت سے بھی فارغ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ فاضل رکن نے کہا کہ بجٹ اکثریت سے پاس ہوا وہ جھوٹ بول رہے ہیں جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ بجٹ کو تمام قواعد پر عمل کرتے ہوئے منظور کیا گیا۔

بلاول بھٹو کے بعد شاہ محمود قریشی نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ بلاول بھٹو نے کہا مجھے اچھی طرح جانتے ہیں، میں بھی انہیں اچھی طرح جانتاہوں، جب یہ کونے میں کھڑے ہوتے تھے اور جھڑکیاں کھاتے تھے، میں انہیں اور ان کے بابا کو بھی جانتا ہوں، جب یہ چھوٹے سے تھے تب سے جانتا ہوں، بچے کو پرچیاں پڑھا دیتے ہیں اور بچہ آٹو پر چل پڑتا ہے، ابھی بچے کچھ وقت لگے گا۔

شاہ محمود نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ایک تقریر سے بلاول اتنا پریشان ہوجائیگا، یہ تو طفلِ مکتب لگتا ہے ابھی بہت صبر کرنا ہے، انہوں نے گیلانی کی بات کی، کم از کم انہیں مک مکا کا اپوزیشن لیڈر نہ بنایا ہوتا، گیلانی سرکاری ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر بنے ہیں، بلاول اپنے گریبان میں جھانکیں انہیں اپنی اصلیت نظر آئے گی کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج بچہ بہت پریشان ہے، اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہیں کرتا۔