Live Updates

ماضی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث صوبے میںن1300ارب روپے کا تھرو فارورڈ،4 ہزار نامکمل ترقیاتی منصوبے ورثے میں ملے‘عثمان بزدار

56ا رب روپے کے چیک خزانے میں کیش کور نہ ہونے کی وجہ سے باؤنس ،صوبہ پنجاب میں 41ارب روپے کے اوور ڈرافٹ لیا گیا ملازمین کی تنخواہوں میں تفاوت کو دور کرنے کیلئے ایک سے 19گریڈ تک25 فیصد خصوصی الاؤنس اورتمام ملازمین کو 10فیصد ایڈہاک الاؤنس دیا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ باقاعدہ اور متوازن ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکیج متعارف کرایا، نظر انداز کردہ علاقوں کی محرومیوں کا ازالہ ہو گا لاہور کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے ، ہم نے لاہور کو انتظامی لحاظ سے تقسیم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے،اس ضمن میں جلد فیصلہ کر لیا جائے گا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا ملتان میں سنگ بنیاد رکھا دیا ہے،بہاولپور میں جلد جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھا جائیگا پنجاب واحد صوبہ ہے جس کا ٹیکس ریونیو ٹارگٹ سرپلس میں ہے ،جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے رولز آف بزنس فائنل ، جلد نوٹیفائی ہوں گے پنجاب اسمبلی سٹاف، لاء، فنانس، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈکے ملازمین کیلئے تین ماہ کی تنخواہ کے برابر اعزازیے کااعلان ہم مساوی حقوق کے ساتھ پنجاب کے ہر شہری کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے ویژن پر عمل پیرا ہیں،پنجاب انشاء اللہ اب آگے ہی بڑھتا رہے گا وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے اختتامی سیشن سے کلیدی خطاب

بدھ 30 جون 2021 23:42

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2021ء) وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بز دار نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں پی ٹی آئی حکومت کا تیسراباقاعدہ بجٹ پیش کرنے کا اعز از بخشنے پر اللہ رب ا لعزت کا شکربجا لاتا ہوں۔پنجاب اسمبلی میں احسن طریقے اور اچھے ماحول میں بجٹ پاس کیا گیا۔اس کی مثال پاکستان کی کسی اسمبلی میں نہیں ملتی۔

میں سپیکر چوہدری پرویزالہٰی اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔میں وزیر قانون راجہ بشارت، وزراء ،حکومتی بنچ اور اپوزیشن کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے بجٹ پاس کرانے میں اپنا جمہوری کردار ادا کیا۔مالی سالن2021-22کا بجٹ پنجاب کی تاریخ کا بہترین بجٹ ہے جس میں ہر شعبہ کے مسائل اور ضروریات کا خیال رکھا گیا۔

(جاری ہے)

یہ حقیقی معنوں میں عوام دوست،کسان دوست، مزدور دوست اور ریلیف بجٹ ہے۔میں وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت، فنانس ڈیپارٹمنٹ، پی اینڈ ڈی بورڈ کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔آج ہم جس مقام پر پہنچ چکے ہیں، جو اہداف حاصل کر چکے ہیں، اس کا کریڈٹ میرے قائد وزیراعظم عمران خان کی غیرمتزلزل قیادت کو جاتا ہے۔میں پاک فوج، این سی او سی، پنجاب پولیس،وزیرصحت،ہیلتھ ٹیم،چیف سیکرٹری اوران کی ٹیم، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف اور کورونا کے دوران فرنٹ لائن پر کام کرنے والے تمام محکموں کے افسروں اوراہلکاروں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتاہوں۔

کورونا ڈیوٹی کے دوران شہیدہونے والے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ آج پنجاب اسمبلی کے بجٹ سیشن کے اختتامی اجلاس سے کلیدی خطاب کر رہے تھی- وزیر اعلی نے کہا کہ تین سال قبل پاکستان تحریک انصاف کو صوبہ پنجاب کے عوام کی خدمت کا موقع ملا۔ماضی کی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث صوبے میںن1300ارب روپے کا تھرو فارورڈاور 4 ہزار نامکمل ترقیاتی منصوبے ورثے میں ملے۔

56ا رب روپے کے چیک خزانے میں کیش کور نہ ہونے کی وجہ سے باؤنس ہوگئے۔صوبہ پنجاب میں 41ارب روپے کے اوور ڈرافٹ لیا گیا۔سابق حکومت پنجاب اسمبلی، وزیرآباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور اور نج لائن میٹرو ٹرین کے نامکمل منصوبے چھوڑ کر گئی۔تریموں تھر مل پاورپراجیکٹ، پاک پتن ہائیڈروپاور پراجیکٹ، مرالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے ادھورے منصوبے ورثے میں ملے۔

نامکمل منصوبوں کی ایک لمبی فہرست ہے جوہمیں ورثے میں ملی۔انہوں نے کہا کہ چین میں کورونا کی وباء پھوٹتے ہی میں نے 26جنوری2020ء کواجلاس میں مشاورت کر کے کابینہ کمیٹی اورٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دیں۔ کورونا وباء سے بچاؤ اور نمٹنے کیلئے فوری تیاری شروع کی گئی۔تفتان سے جب کورونا کے مریض پنجاب لائے جا رہے تھے تو لوگوں میں خوف تھا۔میرے کچھ دوست ڈینگی کا کورونا سے موازنہ کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔

کورونا دنیا بھر میں پھیلنے والی عالمی وباء ہے جس سی18کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے۔ صرف پنجاب میں 10,740 سے زائد لوگ جاں بحق ہو ئے۔ ان حالات میں ہم نے پنجاب کو معاشی بحران سے بچانے کیلئے جو کر سکتے تھے، کیا۔ہم نے اپنی ٹیم بنائی، پالیسیاں تشکیل دیں۔وزیراعظم عمران خان نے ہمارا حوصلہ بڑھایا اور ہمیں گائیڈ لائن دی۔پونے دو سال کا عرصہ مشکلات اوررکاوٹوں سے بھرپور تھا۔

کتنے لاک ڈاؤن کیے گئے،کتنے سمارٹ لاک ڈاؤن ہوئے اورآج انہی اقدامات کی وجہ سے صورتحال میں تیزی سے بہتری آرہی ہے۔انہو ںنے کہا کہ یہ پنجاب کی تاریخ کا بہترین بجٹ ہے۔ موجودہ بجٹ کوپنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈویلپمنٹ بجٹ ہے۔ ہم نے ڈویلپمنٹ کے بجٹ میں 66 فیصد اضافہ کرکے اسے 560ارب تک پہنچا دیا ہے۔ملازمین کی تنخواہوں میں تفاوت کو دور کرنے کیلئے ایک سے 19گریڈ تک25 فیصد خصوصی الاؤنس دیا گیا ہے۔

تمام ملازمین کو 10فیصد ایڈہاک الاؤنس بھی دیاہے۔ صحت کے ترقیاتی بجٹ میں 185 فیصد، ہائر ایجوکیشن میں 286 فیصد،سکول ایجوکیشن میں 29 فیصد، زراعت میں 306فیصد اورصنعت میں 307فیصداضافہ کیا۔پنجاب ریونیو اتھارٹی کی وصولیوں میں 24.7فیصد اضافہ ہوا ہے۔ایکسائز کی ٹیکس وصولی میں ٹارگٹ سے 18 فیصد زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اقلیتوں کے بجٹ میں 400 فیصداضافہ کیا گیا ہے۔

جنوبی پنجاب کیلئے 35فیصد بجٹ مختص کیا ہے جو کہ189ارب بنتا ہے۔انرجی ڈیپارٹمنٹ کے ترقیاتی بجٹ میں 56فیصد، آبپاشی کے ترقیاتی بجٹ میں 76فیصد اور روڈ سیکٹر میں 70 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔لائیوسٹاک کے بجٹ میں 194فیصد اور لوکل گورنمنٹ کے بجٹ میں 102فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ باقاعدہ اور متوازن ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکیج متعارف کرایا۔

ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکیج کے ذریعے نظر انداز کردہ علاقوں کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے بجٹ کی رنگ فینسنگ کی گئی ہے اور الگ بجٹ بک شائع کی گئی۔پنجاب واحد صوبہ ہے جس کا ٹیکس ریونیو ٹارگٹ سرپلس میں ہے۔ سابق حکومت نے تریموں تھرمل پاور پراجیکٹ کو ’فنانشل کلوز‘‘کے بغیرشروع کرایا۔ہم نے اس منصوبے کا فنانشل کلوز کیااورمقامی بینکوں سے بغیر کسی ساورن گارنٹی کی108 ارب روپے کی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی فنانسنگ کرا کر پراجیکٹ کو مکمل کرایا۔

پنجاب اسمبلی کی جس شاندار عمارت میں ہم آج بیٹھے ہیں اس پر کام کو 15 سال بلاوجہ روکے رکھا گیا۔ہم نے پنجاب اسمبلی کے منصوبے کو اڑھائی ارب روپے کی مکمل فنڈنگ کر کے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔وزیر آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجین2006ء میں شرو ع ہوا اور 15 سال اسے زیرالتواء رکھا گیا۔ہم نے ساڑھی3ارب دے کر اسے مکمل کرایا اور یہاں ساڑھی6لاکھ مریضوں کا علاج بھی ہو چکا ہے۔

پنجاب بھر کے ڈسٹرکٹ کے لئے ڈویلپمنٹ پیکیج دے رہے ہیں۔ہم لاہورکے مسائل کو حل کرنے کیلئے خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔لاہور کوسابق دورحکومت کے تیسرے سال میں اورنج لائن میٹروٹرین منصوبے کے بجٹ کو نکال کر 67ارب کی لاگت کے پراجیکٹ دیئے گئے۔ ہم نے اپنے تیسرے سال میں لاہور کو 86ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے دیئے ہیں۔لاہور میں راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ اور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ گیم چینجر منصوبے ہیں۔

لاہور میں سرفیس ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جا رہے ہیں۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے انڈر گراؤنڈ ٹینک بن رہے ہیں۔دلکش لاہور، الیکٹرک بسیں،ایک ہزار بیڈ کا نیاجنرل ہسپتال، گنگارام ہسپتال میں مدراینڈ چائلڈ بلاک اورچلڈرن یونیورسٹی لاہور کے منصوبے ہیں۔ایل ڈی اے سٹی میں 25 ہزار اپارٹمنٹس کی تعمیر،شاہکام چوک اوورہیڈ برج، گلاب دیوی ہسپتال انڈرپاس اورشیرانوالااوور ہیڈبرج بھی لاہور میں بن رہے ہیں۔

وکلاکے لئے ٹاور اور ٹھوکر نیاز بیگ پر عالمی معیار کا بس ٹرمینل بنا رہے ہیں -فوڈ اینڈ ڈرگ لیبارٹری اور لوکل گورنمنٹ اکیڈمی بھی لاہور میں بن رہی ہے۔سروس ڈلیوری کو بہتر بنانے کیلئے ایل ڈی اے کے دائرہ کار کوایک بار پھر لاہورتک محدودکر دیا گیا ہے۔لاہور کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے ، ہم نے لاہور کو انتظامی لحاظ سے تقسیم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے -اس ضمن میں جلد فیصلہ کر لیا جائے گا- میں یہاں تحریک انصاف کی حکومت کے 3 سال کے دوران کئے گئے اقدامات اور سابق ادوار میں جعلی ترقی کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ہماری حکومت نے 360 ارب روپے کا ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکیج دیا ہے۔ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا ملتان میں سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔بہاولپور میں جلد جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھا جائیگا۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے رولز آف بزنس فائنل ہو چکے ہیں اور جلد انہیں نوٹیفائی کر دیا جائے گا- جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کے لئے صوبائی ملازمتوں میں 32%کوٹہ مختص کرنے کی اصولی منظوری دے دی ہے۔

میانوالی اور بھکر کوجنوبی پنجاب کے اس کوٹے میں شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے اور ان دو شہروں کے شامل ہونے سے کوٹہ 35 فیصد ہو جائے گا۔ماضی میں عملی طور پر جنوبی پنجاب کا بجٹ دوسرے منصوبوں پر خرچ کیا گیا اور صرف 17 فیصد بجٹ مختص کیا گیا۔تین سال میں صحت کے مجموعی بجٹ میں 118 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور نئے مالی سال میں 369 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

کورونا ویکسین خریدنے کیلئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کئے ہیں۔شہریوں کی ویکسینیشن کیلئے صوبہ بھر میں 677ویکسینیشن سینٹرقائم کئے گئے ہیں۔2018-19 میں صحت کے بجٹ کا حجم 169 ارب روپے تھا۔یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام ہماری حکومت کا فلیگ شپ پروگرام ہے جس کے تحت ہرشہری کا مفت علاج ہو گا۔ہر خاندان کو 7لاکھ20ہزار روپے سالانہ علاج معالجہ کی معیاری سہولیات بالکل مفت میسر ہوں گی۔

ڈیرہ غازی خان اورساہیوال ڈویژن میں اس پروگرام کا آغازہو چکا ہے۔31دسمبر تک گیارہ کروڑ عوام کومفت علاج کی سہولت میسر ہوگی۔راجن پور، لیہ، اٹک، بہاولنگر،اور سیالکوٹ میں مدراینڈ چائلڈ ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔گنگا رام ہسپتال کے ساتھ 600 بسترو ں پرمشتمل مدر اینڈ چائلڈ بلاک اور ملتان میں 200 بیڈز کا مدراینڈ چائلڈ ہسپتال بن رہا ہے۔

میانوالی میں مدراینڈ چائلڈ ہسپتال تکمیل کی جانب گامزن ہے۔ڈی جی خان میں مدراینڈ چائلڈ ہسپتال بنایا جائے گا۔سابق حکومت نے ایک بھی مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال نہیں بنایا۔ملتان میں نشتر ٹو، رحیم یار خان میں شیخ زید ہسپتال ٹو اور ڈیرہ غازی خان میں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔رحیم یار خان،سرگودھا، بہاولپور کے ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز کی اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے۔

بہاولپوروکٹوریہ ہسپتال تھیلسیمیا یونٹ اینڈ بون میروٹرانسپلانٹ سینٹرکی اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے۔لاہور میں 26سال قبل بڑا ٹیچنگ، جناح ہسپتال بنایا گیا تھا،بعد میں صرف پی کے ایل آئی شروع ہوا اسے بھی ہم نے مکمل کیا۔ملتان میں 70 برس بعد نشتر ٹو ہسپتال بن رہا ہے - چنیوٹ، حافظ آباد اور چکوال میں نئے جدید ترین ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال بن رہے ہیں۔

بھکرڈی ایچ کیو اوربہاولنگر میں کارڈیالوجی یونٹس کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں کارڈیک یونٹ کی اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی راولپنڈی تکمیل کے قریب ہے۔واہ ٹی ایچ کیو کو ڈی ایچ کیو کا درجہ اور ٹیکسلاٹی ایچ کیو کی اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے۔فیصل آباد میں (حسیب شہید)جنرل ہسپتال اگلے سال مکمل ہو جائے گا۔

صوبہ بھر میں 40نئے ٹراما سینٹرز کے قیام کامنصوبہ بنایا ہے اور26موجودہ غیر فعال ٹراما سینٹر کوفنکشنل کیا جائے گا۔ہماری حکومت نے اڑھائی سال میں 32 ہزار ڈاکٹراور پیرا میڈیکل سٹاف کو بھرتی کیا۔سابق حکمرانوں نے اپنے پہلے تین سال میں صرف 18ہزار بھرتیاں کیں۔ایجوکیشن کا بجٹن442.1نارب روپے مختص کیا گیا ہے۔اساتذہ کے لئے پہلی بار ای ٹرانسفر،ای لیو اورای ریٹارمنٹ پالیسی نافذ کی گئی ہے۔

گھر بیٹھے اساتذہ کو درخواست جمع کرانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے اور اب تک70ہزار سے ز ائد اساتذہ مستفید ہو چکے ہیں۔سابق دور میں ایجوکیشن کے بجٹ کا کل حجمن103.7نارب روپے تھا۔ہم مختصر عرصے میں 6 یونیورسٹیاں وویمن یونیورسٹی راولپنڈی، کوہسار یونیورسٹی مری، باباگورونانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب، ایمرسن کالج یونیورسٹی ملتان،یونیورسٹی آف چکوال اورمیانوالی یونیورسٹی قائم کر چکے ہیں۔

مزید9 یونیورسٹیوں کوہ سلیمان یونیورسٹی راجن پور، بابا فرید یونیورسٹی پاکپتن، تھل یونیورسٹی،حافظ آباد، اٹک، گوجرانوالہ،لیہ اوریونیورسٹی آف تونسہ اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجننگ ٹیکنالوجی سیالکوٹ کے قیام کی منظوری دی جا چکی ہے۔شیخوپورہ،، ڈی جی خان، بہاولنگر،ٹوبہ ٹیک سنگھ، مظفر گڑھ اور قصور میں 6 مزید یونیورسٹیاں بھی بنائیں گے۔

ذہین اورمستحق طلبہ کیلئے رحمت اللعالمینؐ سکالر شپ کا آغاز کیا گیا ہے۔سابق دو رمیں صرف7 یونیورسٹیاں بنائی گئی تھیں۔ہماری حکومت نے نئے 86 ایسوسی ایٹ کالج بنا ئے ہیں اور 590ڈگری کالجز کو ایسوسی ایٹ کا درجہ دیا ہے۔160کالجز کو گریجوایٹ لیول پر اپ گریڈ کیا گیا ہے۔گزشتہ دور کے 75 نئے کالجوں کو سیاسی تعصب سے بالاتر ہو کر مکمل کیا۔سابق حکمرانوں نے اپنے دور میں صرف 78 کالج بنائے اور صرف 41 کالجوں کو گریجوایٹ لیول اپ گریڈ کیا۔

ہم نے 3 سال میںن1533سکولوں کی اپ گریڈ یشن مکمل کی ہے جبکہ نئے مالی سال میںن8360نسکولوں کی اپ گریڈیشن ہو گی۔ان میں 40 فیصد سکول جنوبی پنجاب میں ہیں اوران میں گرلز سکولوں کا تناسب 53فیصد ہے،مجموعی طورپر27ہزار سے زائد سکول اپ گریڈ کیے جائیں گے۔سابق حکومت کے 5 سال میںن1330نسکول اپ گریڈکئے گئے۔ہم نے گندم کی امدادی قیمتن1800نروپے مقرر کی اور گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی۔

گزشتہ سال کی نسبت گندم کی پیداوار میںن28.57% اضافہ ہوا۔ہم نے گندم خریداری مہم کے لئے گردآوری کی شرط کو ختم کیا - سابق حکومت نے 5 برس تک گندم کی امدادی قیمتن1300نروپے تک فریز کئے رکھی جس سے نہ صرف کاشتکار کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ملکی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔ہم نے گنے کے امدادی نرخ200 روپے مقرر کئے اور بینکنگ ٹرانزکشن لازمی قرار دی۔

شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹن2021نمیں کسان دوست اصلاحات کی گئیں۔021نمیں گنے کے کاشتکار کو 102 ارب روپے اضافی آمدن ہوئی۔ہم نے کاشتکار کو براہ راست ادائیگی کیلئے کسان کارڈ کا اجراء کیا اور4ارب روپے کے سبسڈی دی گئی۔وزیراعظم کے زرعی پیکیج کی مجموعی لاگت51.9ارب روپے ہے۔نئے مالی سال میں پھل اورسبزیوں کی ماڈل مارکٹیں قائم کرنے کیلئے 4.8ارب روپے مختص کئے ہیں۔

منڈیا ں فری کر کے اجارہ داری کا خاتمہ کیا ہے۔اس مقصد کے لئے پرانے قانون میں ترمیم کرکے منڈی قائم کرنے کیلئے آسانی اورسہولت پیدا کی گئی۔پنجاب بھر میں 337سہولت بازار قائم کئے گئے ہیں اور سہولت بازار اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔1965ء کے بعد پنجاب میں آبپاشی کا کوئی نیا ایریگیشن سسٹم نہیں آیا۔گریٹر تھل کینال، چوبارہ کینال برانچ پر اس سال کام شروع ہوگا اور اس پر 20 ارب روپے لاگت آئے گی۔

جلال پور کینال پر کام شروع ہوچکا ہے، یہ منصوبہ 32 ارب روپے سے مکمل ہوگا۔ اسلام بیراج، تریموں، پنجندبیراج کی بحالی اور اپ گریڈیشن ہو چکی ہے۔میلسی سائفن اور SMB لنک کینال کی تشکیل نو کی گئی ہے۔پوٹھوہار میں صاف پانی کیلئے ڈھڈوچہ اورگھبیر ڈیم زیر تکمیل ہیں،پپین ڈیم اگلے سال شروع ہوگا۔کوہ سلیمان میں 4مزید ڈیموں کی تعمیر کیلئے فیزبلیٹی رپورٹ تیاری کے مراحل میں ہے۔

27ارب روپے کی لاگت سے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے پی آئی سی آئی آئی پی کے تحت سیالکوٹ اور ساہیوال میں فراہمی و نکاسی آب کے پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔پی آئی سی آئی آئی پی فیز ٹو میں مزید7شہروں میں انٹی گریٹڈماسٹر پلاننگ کا عمل جاری ہے۔اس ماسٹر پلاننگ کو مدنظررکھتے ہوئے راولپنڈی،ملتان، سرگودھا، بہاولپور، مظفرگڑھ، رحیم یارخان، ڈی جی خان میں مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔

پنجاب سٹیزپروگرام کے تحت 16 شہروں بہاولنگر،بورے والا،ڈسکہ،گوجرہ،حافظ آباد، جڑانوالہ، جھنگ، جہلم، کمالیہ، کامونکی،خانیوال،کوٹ ادو،مریدکے،اوکاڑہ،وہاڑی اوروزیرآباد میں میونسپل سروسز میں بہتری لا جا رہی ہے۔پنجاب رورل سسٹین ایبل واٹر سپلائی اینڈ پراجیکٹ کے تحت 16تحصیلوں کے دیہات میں فراہمی و نکاسی آب ٹوائلٹس،ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے پراجیکٹ اسی سال شروع ہوں گے جن پر 89ارب روپے لاگت آئے گی۔

یہ پراجیکٹ عیسیٰ خیل،کوٹ مومن،کلرکہار، دریاخان، پاکپتن، بھوانہ، احمد پور سیال، روجھان، لیاقت پور، تونسہ، کہروڑپکا،خیر پور ٹامیوالی،علی پور،بہاولنگراورشجاع آباد بنائے جائیں گے۔اورنج لائن میٹروٹرین کے منصوبے کی تعمیر پر215ارب روپے خرچ ہوئی-اس منصوبے کے ماہانہ 66کروڑ روپے کے اخراجات اورماہانہ آمدن صرف 6.90کروڑ روپے ہے۔سالانہ 8ا رب روپے سبسڈی دی جارہی ہے۔

فیزیبلٹی رپورٹ میں مسافروں کی تعداد2لاکھ 55ہزارجبکہ عملی طورپر مسافروں کی تعداد50سے 60ہزار ہے۔2023ء سے اس قرض کی 30ارب روپے کی قسط کی ادائیگی شروع ہوگی۔پنجاب کا مجموعی روڈز انفراسٹرکچرایک لاکھ11ہزارکلومیٹر ہے جس کیلئے مجموعی طورپر 100ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔آر اے پی فیز ون کے تحتن1236کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر ومرمت مکمل کی گئی ہے۔

آر اے پی فیز ٹو میںن1078کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر ومرمت اسی سال دسمبر میں مکمل ہوجائے گی۔پی ایس ڈی پی میں پہلی بار پنجاب میں 13شاہراہوں کو دورویہ کرنے کیلئی73ارب روپے کے میگا پراجیکٹس دیئے گئے ہیں۔سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی بحالی کیلئے نئے مالی سال میںن1769نمنصوبے شروع ہونگے جن پر مجموعی لاگت 380ارب آئے گی، اس کیلئی100ارب روپے مختص کئے ہیں۔

پی پی پی موڈ میں سڑکوں کی تعمیر کی13منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔اے ڈی بی کے تحت آرٹیریل روڈز کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔پنجاب کی 146 تحصیلو ں میں پیری اربن افورڈایبل سکیم کے تحت گھر دیئے جائیں گے۔ فیز ون میں 37تحصیلوں میں 10ہزار گھر بنائے جا رہے ہیں جو اسی سال مکمل کرلیے جائیں گے۔ایل ڈی اے سٹی کے قریب 25 ہزار اپارٹمنٹس بنائے جا رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں کم لاگت کے 4 ہزار فلیٹس دیئے جائیں گی-53 ارب روپے کا پنجاب احساس پروگرام اپنی نوعیت کا اچھوتا پروگرام ہے۔

پنجاب بھر میں 94پناہ گاہیںاور لنگر خانے قائم کئے جا چکے ہیں۔ انصاف امداد پروگرام کے تحت اڑھائی لاکھ متاثرہ خاندانوں کیلئے احساس پروگرام میں حکومت پنجاب نے 10ارب روپے فراہم کیے۔ کورونا ڈیوٹی کرنے والے فرنٹ لائن ورکرز کو سپیشل الاؤنس دیا گیا۔پنجاب کی پہلی سپورٹس پالیسی متعارف کرائی گئی ہے۔سپورٹس انفراسٹرکچرکی بہتری پر توجہ دی جا رہی ہے۔

500مزید سپورٹس گراؤنڈ بنائے جائیں گے۔15تحصیلوں میں تحصیل سپورٹس کمیلیکس بنائے جائیں گے۔کرکٹ اورہاکی کے کھلاڑیوں کے لئے ہائی پرفارمنس سینٹرکا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ہمارے دور میں پنجاب پولیس نے تمام بڑے کیس منطقی انجام تک پہنچائے، جوہر ٹاؤن بم دھماکہ اس کی حالیہ مثال ہے۔پولیس میں نفری کی کمی پوری کرنے کے لئے 13 ہزار بھرتیاں کی گئیں۔

54 نئے پولیس سٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔37 پولیس سٹیشن کی تکمیل کے لئے فنڈز مہیا کئے گئے۔2 ارب روپے کی لاگت سے پولیس کو 550 نئی گاڑیاں فراہم کی گئیں۔دور دراز علاقوں کے لئے 37 پولیس خدمت مراکز کا قیام عمل میں لا گیا۔100 نئے پولیس سٹیشنوں کیلئے اراضی کی فراہمی کا عمل مکمل کیا گیا۔ہم نے ریسکیون1122نکو محکمہ بنا دیا ہے۔ملازمین کیلئے سروس سٹرکچر بنا یا گیا ہے۔

258 نئی ایمبولینسیں دی گئی ہیں اس کے علاوہن1350نموٹر بائیک ایمبولینس بھی دے رہے ہیں۔مزید 86 تحصیلوں میں اسی سال ایمرجنسی سروسز کا آغاز کر دیا جائے گا جس کے بعد تمام 146تحصیلوں میں ریسکیون1122نکے سینٹر آپریشنل ہو جائیں گے۔انشاء اللہ اسی سال پنجاب میں ریسکیو ایئر ایمبولینس کا آغاز کردیا جائے گا،بجٹ میں اس کیلئے فنڈز مختص کردیئے گئے ہیں۔

پنجاب واحدصوبہ ہے جہاں تمام بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کر دیا گیا ہے۔لاہور میں 200ماحول دوست الیکٹرک بسیں چلائی جائیں گی۔ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم اور انوائر منٹ مانیٹرنگ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔اڑھائی سال میں 10سیمنٹ پلانٹس لگانے کے لئے این او سی جاری کئے گئے۔مزید10 سیمنٹ پلانٹس کی منظوری کا عمل تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔

پنجاب میں ہماری حکومت سے قبل70برس کے دوران 12سیمنٹ پلانٹ تھے لیکن سابقہ دور میں ایک بھی سیمنٹ پلانٹ نہیں لگایا گیا۔پنجاب میں 12 نئے سپیشل اکنامک زون بنائے جا رہے ہیں۔4انڈسٹریل سٹیٹں کو اپ گریڈکر کے سپیشل اکنامک زون کا درجہ دیا جارہاہے۔پچھلے دور کے اختتام تک2 سپیشل اکنامک زون بنائے گئے تھے۔بینک آف پنجاب کے مالی اشتراک سے 30 ارب کی لاگت سے پنجاب روزگار پروگرام کا آغاز کردیاگیاہے۔

چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کی ترو یج کیلئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ہم نے 3 ٹیکنیکل یونیورسٹیاں قائم کیں۔میر چاکر خان رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان، پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی رسول منڈی بہاؤالدین اور پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی راولپنڈی کیلئے قانون سازی آخری مراحل میں ہے۔تیانجن یونیورسٹی کو فنکشنل کیاگیا۔

3 سال میں مزدور کی ماہانہ اجرت 20 ہزارروپے تک پہنچ گئی ہے۔مزدور کی کم از کم اجرت میں 33.3فیصد اضافہ کیا۔نئی لیبر ہاؤسنگ الاٹمنٹ پالیسین2021کانفاذ کیا گیا ہے۔مزدوروں کو پہلی مرتبہ مالکانہ حقوق پر گھر دیئے جارہے ہیں۔سابق حکمرانوں نے 10 سال حکومت کی مگر مزدور کی کم ازکم اجرات 15 ہزار سے نہ بڑھ سکی۔محکمہ معدنیات نے کورونا کے باوجود 10ارب نان ٹیکس ریونیو قومی خزانے میں جمع کرایا۔

ماضی میں مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ کا اوسط ٹیکس ریونیو 4.3ارب سے نہ بڑھ سکا۔10750نپرائمری سکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کیا گیا۔تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دفاتر بتدریج شمسی توانائی پر لائے جا رہے ہیں۔لیہ / چوبارہ میں 100 میگا واٹ کا سولر پراجیکٹ کے نرخ 3.2 سینٹ فی یونٹ ہے۔پاکپتن ہائیڈور پاور پراجیکٹ اور مرالہ ہائیڈورپاور پراجیکٹ کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا گیا۔

پسماندہ علاقوں میں آف گرڈ بجلی کی فراہمی کے لئے خصوصی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کی لاگت ایک ارب ہے۔یہ پروگرام تھل، چولستان اورکوہ سلیمان کے علاقوں میں شروع کیا جا رہا ہے۔گزشتہ دور میں 14 سینٹ فی یونٹ کے نرخ پر سولر انرجی کے معاہدے کئے گئے۔ صوبے میں 60اراضی ریکارڈ سینٹر قانگوئی کی سطح پرفنکشنل کردیئے گئے ہیں۔20 موبائل وین اراضی ریکارڈ سنٹرفنکشنل کئے گئے اور اگلے سال مزید 20 موبائل وین اراضی سنٹر قائم کئے جائیں گے۔

عوام کی سہولت کیلئے 807 دیہی مراکز مال قائم کئے جا چکے ہیں۔ہر ریونیو سرکل میں مزید 8 ہزار دیہی مراکز مال قائم کئے جائیں گے۔پنجاب میں 5 ہزار ریونیو آفیسرز بھرتی کئے جارہے ہیں۔2018ء تک 125اراضی سینٹر قائم کیے گئے تھے۔125سال(1894)نپرانے جیل کے قوانین میں ترامیم لائی جا رہی ہیں۔میں نے خود جیلوں کے وزٹ کیے اور صورتحال کاخود جائزہ لیا اور جیلوں میں مسنگ فسیلٹیز فراہم کی جا رہی ہیں۔

پنجاب میں قبضہ گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی گئی۔458 ارب روپے کی ایک لاکھ80ہزار ایکڑ اراضی واگزارکرائی گئی۔3 سال میں 2 ارب 35 کروڑ کی ڈائریکٹ اور 26 ارب کی ان ڈائریکٹ ریکوری کی گئی۔10 سال میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے 43 کروڑ کی ریکوری کی۔پنجاب ہاؤس اسلام آباد کے ریونیو میں 245 فیصد اضافہ ہوا۔ہمارے دور میں صوبائی کابینہ کے 46 اجلاس ہو چکے ہیں۔

سابق دور میں صوبائی کابینہ کے تین سال میں 19 اجلاس منعقد ہوئے۔ ہم نے سی ایم آفس کے اخراجات میں 45فیصد کمی کی۔میں نے تین سالوں میں سابق وزیر اعلی کے مقابلے میں ڈبل دورے کیے۔میں نی135دورے کئے اور وہاں بھی گیا جہاں کوئی وزیر اعلی کبھی نہیں گیا۔لوگوں کے مسائل کا آن گراؤنڈ جائزہ لیا اور حل کے لئے احکامات جاری کئے۔بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے تمام صوبوں کے دورے کیے۔

پنجاب میں بلوچستان اورسندھ کے کلچرل ڈے منائے گئے۔ پنجاب حکومت تربت میں ہسپتال،خاران میں ٹیکنیکل کالج اورموسی خیل میں ریسکیو سروسز کی فراہمی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبے مکمل کروا رہی ہے۔بلوچستان،کے پی کے اور گلگت بلتستان کو ایمبولینس اورطبی آلات بھی فراہم کررہے ہیں۔ حال ہی میں حکومت پنجاب کے ادارے آئی ڈی اے پی کو کے پی کے حکومت اور وفاقی حکومت کی درخواست پر خدمات فراہم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

والڈ سٹی اتھارٹی پنجاب اوربلوچستان میں تاریخی مقامات کی بحالی کیلئے کام کررہی ہے۔ ریسکیو1122کے زیر اہتمام بلوچستان،آزادجموں و کشمیراورگلگت بلتستان کین1456ریسکیو اہلکاروں کو پیشہ ورانہ ٹریننگ فراہم کی گئی۔ پنجاب تمام صوبوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی خدمات اوروسائل پیش کررہاہے اورکرتا رہے گا۔یہ وہ حقائق ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کئے اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

میں وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور ان کی ٹیم کو متوازن اور فلاحی بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں - پنجاب اسمبلی سٹاف، لاء، فنانس، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ملازمین کیلئے تین ماہ کی تنخواہ کے برابر اعزازیے کااعلان کرتا ہوں۔ہم مساوی حقوق کے ساتھ پنجاب کے ہر شہری کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے ویژن پر عمل پیرا ہیں۔پنجاب انشاء اللہ اب آگے ہی بڑھتا رہے گا۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات