اسلام میںجبری تبدیلی مذہب کی کوئی جگہ نہیں

مقبوضہ جموںوکشمیر سے آنے والی ایسی اطلاعات حقیقت پر مبنی نہیں ، رپورٹ

جمعرات 1 جولائی 2021 16:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جولائی2021ء) بھارت کے غیرقانونی طور زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سکھ لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے بارے میں حالیہ اطلاعات حقائق پر مبنی نہیں ہیں کیونکہ اسلام میں جبری شادیوں اور مذہب کی تبدیلی کا قطعی طور پر کوئی تصور نہیں ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دو کشمیری سکھ لڑکیوں جن کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ انکا زبردستی مذہب تبدیل کیا گیا اور پھر ان سے شادی کی گئی نے بھی اپنے بارے میں پھیلائی جانے والی خبروں کو خود سوشل میڈیا پر آکر مسترد کر دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سکھ لڑکی نے اپنے اہلخانہ کی طرف سے ہراساںکیے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور سری نگر میں عدالت کو بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل اور ایک مسلمان مرد سے شادی کی ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی میں قائم متحدہ مجلس عمل جموں و کشمیر (ایم ایم یو) کا حوالہ دیا گیا جس میں شامل علمائے کرام نے بھی بعض میڈیا اداروں کے ان دعوؤں کی تردید کی کہ دو مقامی سکھ لڑکیوں کو شادی کے لئے زبردستی اسلام قبول کرایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم ایم یو نے واضح کیا کہ اسلام امن ، رواداری اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اور یہ کہ اسلام میں زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایم ایم یو کا کہنا تھا کہ ’’حقیقت میں اسلا م نے ہر سمجھدار اور بالغ انسان کو مذہب کی آزادی دی ہے لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے کوئی اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو یہ اسکی مرضی کی بات ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بعض فرقہ پرست قوتوں کے مذموم عزائم کو شکست دینے کیلئے سکھوں اور مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے اور کشمیری عوام کسی کو بھی مقبوضہ علاقے میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے صدیوں پرانے ماحول کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

رپورٹ کے مطابق بیرونی عناصر دانستہ طورپرمقبوضہ علاقے میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے سکھ بھائیوں کے ساتھ ہر غم اور خوشی میںشریک ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے سکھ لڑکیوں کی طرف سے اسلام قبول کرنا ایک نجی معاملہ ہے لیکن بعض عناصر اسے بعض فرقہ پرست عناصر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکھ رہنما جگموہن سنگھ رینا نے سرینگر میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں سکھ برادری مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پچھلے کئی برسوں میں دونوں طبقوں کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں تاہم دونوں برادریوں کے درمیان موجود مضبوط رشتوں کی وجہ سے مذموم عناصر کو شکست ہوئی ہے ۔

رپورٹ میں سکھوںکی نمائندہ تنظیم شرومنی اکالی دل کے صدر ایس پرمجیت سنگھ نے بھی سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں کسی سکھ لڑکی کی زبردستی شادی یا اسکا مذہب تبدیل نہیں کرایا گیااور اس سلسلے میں بعض عناسر بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموںوکشمیر میں مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا گذشتہ 500 برس سے جاری ہے اور کسی کو بھی اسے نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔