نیب کا سیکشن 31-A مجھ پر نہیں بلکہ خود چیئرمین نیب پر لاگو ہوتا ہی:سعید غنی

ایک ویڈیو پر بلیک میل ہوکر تمام اپوزیشن جماعتوں کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں اور کیسز پر اثر انداز ہورہے ہیں: وزیر تعلیم و محنت سندھ

ہفتہ 3 جولائی 2021 20:34

نیب کا سیکشن 31-A مجھ پر نہیں بلکہ خود چیئرمین نیب پر لاگو ہوتا ہی:سعید ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 جولائی2021ء) وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ نیب کا سیکشن 31-A مجھ پر نہیں بلکہ خود چیئرمین نیب پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ویڈیو پر بلیک میل ہوکر تمام اپوزیشن جماعتوں کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں اور کیسز پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ میں پیر کی صبح نیب کراچی کے دفتر میں اکیلا جاؤں گا اور ساتھ کچھ کپڑے لے جاؤں گا تاکہ نیب کی دوسری پریس ریلیز میں جو تحقیقات کے نام پر مجھے ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے اس کی مجھ سے وہ تحقیقات کریں۔

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جس ویڈیو کی وجہ سے چیئرمین نیب موجودہ نااہل، نالائق اور سلیکٹیڈ حکومت کے ہاتھوں بلیک میل ہورہا ہے وہ ویڈیو حلیم عادل شیخ کے پاس ہے کیونکہ اس کی گرفتاری اور اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر چیئرمین نیب سمیت تمام نیب اچھل پڑی ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین نیب قوم کو بتائیں کہ انہوں نے شوگر اسکینڈل، گندم اسکینڈل، پیٹرول پرائس اسکینڈل، ادویات اسکینڈل پر کون سی تحقیقات کی ہیں اور مختلف کمیشن کی رپورٹس کے باوجود اس میں جو پی ٹی آئی کے اے ٹی ایمز ملوث پائے گئے ان کے خلاف کون سے کیسز نیب میں دائر کئے ہیں۔

اس وقت چیئرمین نیب کے پاس کچھ نہیں تاہم حکومت کے پاس ان کی ویڈیو ہے۔ ایم کیو ایم ملکی سیاست سے فارغ ہوچکی ہے اور ان کا طرز سیاست آج بھی الطاف حسین کے طرز سیاست کی طرح ہے اور وہ لسانی اور تعصبانہ سیاست کررہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سعید غمی نے کہا کہ یکم جولائی کو کراچی میں سید ناصر حسین شاہ اور میں نے ایک پریس کانفرنس میں مختلف اشیوز پر بات کی اور اس میں ہم نے ہمارے پاس آنے والے نیب کراچی کے ایک خط جس میں نیب ہیڈ کواٹر سے سندھ میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کی زمینوں پر قبضوں کی شکایات رپورٹ کی روشنی میں ان کے خلاف تحقیقات کا کہا گیا تھا ہم نے مطالبہ کیا کہ جس طرح اپوزشن کے رہنمائوں کو ابتدائی اسٹیج پر گرفتار کیا جاتا ہے، نیب فوری طور پر حلیم عادل شیخ کو گرفتار کرے اور اس کا نام ای سی ایل میں شامل کرے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ مجھے امید نہیں ہے کہ نیب اس طرح کی کوئی کارروائی کرے گی کیونکہ یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے اور یہ صرف اور صرف نیب ایک سیاسی انتقام کا آلہ کار ہے اور وہ پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کے ان رہنمائوںکے خلاف جو اس نالائق، ناہل اور سلیکٹیڈ حکومت کے خلاف بات کرتے ہیں، ان کو سیدھا کرنے کے لئے، تنگ کرنے کے لئے اور سزا دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور گرفتار کرکے ان کو پریشان کرتا ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ چیئرمین نیب کے خلاف ابھی نہیں بلکہ میں کئی سالوں سے بات کرتا آیا ہوں کہ وہ ایم ویڈیو چلی تھی، جس کے بعد وہ حکومت کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے جارہے ہیں اور اس ایک ویڈیو نے ان کو کہی کا نہیں چھوڑا ہے اور یہ ویڈیو دکھا دکھا کر حکومت ان سے غلط کام کروا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ چیئرمین نیب کے عہدے پر بیٹھا ایک شخص ایک ویڈیو کی بناء پر حکومت کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا جارہا ہوں۔

انہوںنے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے بعد اسی روز شام کو نیب اسلام آباد کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی، جس میں نیب کے سیکشن 31-A کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے میرے بیان کی مذمت بھی کی اور یہ کہا کہ اس پر ہم کارروائی کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ 31-A مجھ پر کسی طرح لاگو نہیں ہوتا کیونکہ حقیقت میں یہ سیکشن یا تو نیب کے ملازمین پر یا ان پر جو کسی طور پر نیب کے کیس میں اس کی انکوائیری، انویسٹی گیشن میںیا پروسٹیکیوشن پر متاثر ہوں۔

انہوںنے کہا کہ خورشید احمد شاہ یا اعجاز جاکھرانی کے حسوالے سے میں بات کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ زیادتی اور ظلم ہورہا ہے تو اس کی پاداش میں مجھے 31-A کے تحت کارروائی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ دو جولائی کو میں نے ایک اور پریس کانفرنس کی اور ان نالائقوں اور نااہلوں کو سمجھایا کہ میں تو وکیل نہیں ہوں لیکن آپ کے یہاں تو بڑے بڑے وکیل بیٹھیں ہیں ان سے پوچھ لیں کہ یہ 31-A تو خود نیب کے لوگوں پر لگتا ہے اور سب سے زیادہ چیئرمین نیب پر لاگو ہوتا ہے اس لئے کہ وہ ہر کیس پر اثر انداز ہورہا ہے۔

انہوںنے کہا کہ چیئرمین نیب حکومت کے ہاتھوں یرغمال ہوکر کیسوں پر اثر انداز ہورہا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے بعد شام کو نیب کی جانب سے ایک اور پریس ریلیزجاری کی جاتی ہے اور اس میں کہا گیا کہ میں نے جو نیب کے خلاف عوام کو گمراہ کرنے اور پروپگنڈہ کرنے اور نیب کی شاخ اورشہرت کو خراب کرنے کی پاداش میں وہ مجھے لیگل نوٹس بھیجیں گے اور 31 A کے جائزہ کا بھی ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ میرے خلاف نیب کراچی میں کسی قسم کی کوئی تحقیقات ہورہی ہے۔

انہوںنے کہا کہ یکم جولائی کی پریس ریلیز میں کسی قسم کی تحقیقات کا ذکر نہیں ہے لیکن جب دو جولائی کو جب میں نے 31-A ان کے منہ پر ماڑا تو انہوں نے تحقیقات والا ڈرامہ شروع کردیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ نیب شوق سے میرے خلاف تحقیقات کرے۔انہوںنے کہا کہ کچھ عرصہ قبل نیب سکھر کے چیئرمین نے ہمارے ورکرز ویلفئیر بورڈ کے افسران کو ان کے دفتر سے اغواء کرکے جبری طور پر ہمارے ورکرز کے فلیٹس اور چیکس چیئرمین نیب کے ہاتھوں تقسیم کرائے، جس پر میں نے نہ صرف ان فلیٹس کو کینسل کردیا بلکہ چیکس بھی رکوا دئیے کیونکہ چئیرمین نیب کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس طرح ہمارے ادارے کے فلیٹس کو تقسیم کرے۔

سعید غنی نے کہا کہ میں نے اس وقت بھی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ نیب والوں نے ہمارے افسران کو اس وقت ہی کہا تھا کہ ہم تمھارے وزیر کو بھی دیکھ لیں گے جو ایسا کررہا ہے۔ انہوںنے کہا کہ میں تو اس وقت سے ہی انتظار کررہا تھا کہ میرے خلاف یہ کوئی کیس بنائیں گے اور آج بھی تیار ہوں۔ انہوںنے کہا کہ میں اپنے خلاف ہر تحقیقات کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ میں چیئرمین نیب کے خلاف عرصہ سے بات کررہا ہوں لیکن کوئی میرے خلاف کیس یا تحقیقات کا نہیں کہا گیا لیکن جب میں نے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بات کی تو اس کے پاس کو کون سے گیدرسنگھی ہے کہ اس پر پوری نیب اچھل پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ کہی یہ ویڈیو حلیم عادل شیخ کے پاس تو نہیں ہے، جس پر نیب چیئرمین بلیک میل ہورہا ہے۔

انہوںنے کہا کہ اس تمام صورتحال کے بعد مجھے نیب کی جانب سے تھریڈ کیا جارہا ہے، مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ میں نے کل کی پریس کانفرنس میں کہا تھا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ نیب میرے خلاف انکوائیری کرے، تحقیقات کرے، میرے خلاف انویسٹی گیشن کرے یا ریفرنس فائل کرے میں ضمانت نہیں کرائوں گا۔ انہوںنے کہا کہ میں نیب کو واضح طور پر کہتا ہوں کہ میں انشاء اللہ پیر 5 جولائی کی صبح 10بجے نیب کے دفتر جائوں گا اور اپنے ساتھ دو چار کپڑے کے جوڑے لے جائوں گا اور جاکر ان کو بتائوں گا کہ میں نے ضمانت نہیں کروائی ہے، میں قانون کو ماننے والا ہوں اگر میرے خلاف کوئی شکایت ہے اور کوئی تحقیقات ہے تو بے شک مجھے گرفتار کرو اور میرے خلاف جتنا ریمانڈ لینا چاہتے ہیں لے لیں چاہے وہ 90 دن کا لیں یا ایک سال کا ریمانڈ لے میں ضمانت نہیں کروائوں گا۔

سعید غنی نے کہا کہ یہ کون سے شرافت ہے کہ میں اگر آپ سے کسی کی گرفتاری کا مطالبہ کروں تو آپ مجھے تھریڈ کریں، مجھے 31-A کی دھمکیاں دیں اور میرے خلاف تحقیقات کا ڈرامہ کریں۔ انہوںنے کہا کہ اس ملک میں گندم کے اسکینڈل میں عوام کی جیبوں سی100 ارب روپے نکل گئے تحقیقات ہوئی اس پر نیب کیوں سو ری ہے کس کے خلاف ایکشن لیا۔ حکومت نے شوگر کمیشن بنایا، اس کی رپورٹ پر کوئی ایکشن نہیں ہوا، ایف آئی اے سے فارنزک کروائی اب سینیٹر علی ظفر فیصلہ کریں گے۔

انہوںنے کہا کہ علی ظفر شوگر ملز والوں کا وکیل رہا ہے۔ نیب اس پر کیوں خاموش ہے۔ کیا اس بات سے کسی کو انکار ہے کہ گندم اور چینی کی قیمتیں بڑھی تحیقیقات کی رپورٹ پر نیب نے کیا کیا۔ پیڑول اور دوائیوں کی قیمتیں بڑھی نیب نے کیا ایکشن لیا۔ اس ملک کے لوگوں کی جیبوں پر اے ٹی ایم نے ڈاکے ڈالے نیب نے کیا کیا ہے۔ اب اگر میں کسی حکومت کے اس شخص کے خلاف جس کے خلاف شواہد موجود ہیں اس پر ایکشن لینے کا کہتا ہوں تو الٹا میرے خلاف تحیققات کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ہم بار بار کہہ چکیں ہیں کہ یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے، نیب اس حکومت کی سیاسی انتقامی کارروائیوں کا ہتھیار ہے اور چیئرمین نیب کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن حکومت کے پاس ان کی ویڈیوز ہیں، جس کی بنا پر وہ چیئرمین نیب کو اپنی انگلیوں ہر نچا رہے ہیں۔ انہوں نے چیئر مین نیب کوئی فیصلے قانون کے مطابق نہیں کررہے ہیں۔

نیب کے قانون کا جتنا غلط استعمال چیئرمین نیب کررہا ہے اتنا کوئی نہیں کررہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ میں 4 سالوں سے سندھ حکومت کے ساتھ کابینہ میں ہوں اور 7 سے زائد علیحدہ علیحدہ وزراتوں میں رہا ہوں۔ انہوںنے کہا کہ میں نے آج تک یونس میمن یا یونس قدوائی کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی میری اس سے فون پر کوئی بات ہوئی ہے۔

انہوںنے کہا کہ مجھے پارٹی قیادت یا وزیر اعلیٰ یا پارٹی کے رہنمائوں نے کبھی نہیں کہا کہ یہ یونس میمن کا کام ہے کردو۔ انہوںنے کہا کہ میرا اپنا تجربہ ہے کہ اس کی حکومت میں کوئی مداخلت نہیں رہے۔ نیب بادشاہ ہے وہ کسی کو کچھ بھی بنا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب لوگوں کی شاخ کو مجروح کررہا ہے، وہ لوگوں کی عزتوں کو اچھال رہا ہے، نیب کی وجہ سے لوگوں نے خودکشیاں کی اور ان کے خاندان تباہ ہورہے ہیں۔

ایم کیو ایم کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ ایم کیو ایم ملکی سیاست سے فارغ ہوچکی ہے اور ان کا طرز سیاست آج بھی الطاف حسین کے طرز سیاست کی طرح ہے اور وہ لسانی اور تعصبانہ سیاست کررہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ اگر ایم کیو ایم کو آئندہ بلدیاتی انتخابات یا جنرل انتخابات میں کسی قسم کی کوئی کوئی مرعی حمایت نہ ملی تو ان کو وجود ختم ہوجائے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کو میں تو مشورہ دوں گا کہ وہ ایک ویڈیو کی وجہ سے اتنے خراب ہورہے ہیں تو ان کو خود استعفیٰ دینا چاہئے۔ اس عمر میں وہ حکومت کی ایما پر بے گناہ افراد کے خلاف کارروائیاں کرکے ان کی بددعائیں لینے کی بجائے دعائیں لیں اور استعفیٰ دے دیں۔ ایک اور سوال پر سعید غنی نے کہا کہ ارباب رحیم جہاں بھی گیا ہے اس نے اس جماعت کو تباہ و برباد کیا ہے اور اب ہی ٹی آئی میں جو کسر رہ گئی ہے وہ پوری کردیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ چیئرمین نیب ہوں یا ان اداروں کے سربراہان جن کو آئینی طور پر ذمہ داریاں دی گئی ہوں ان کو نہ صرف سیاسی بیان دینے چایئے اور نہ ہی سیاست میں آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہاں سب کچھ چل رہا ہے۔ ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ خود میڈیا اور عوام فیصلہ کرے کہ جب سے نیب بنی ہے اس ملک میں کرپشن بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے۔

ایک اور سوال پر انہوںنے کہا کہ آصف علی زرداری نے پہلے ہی کہا تھا کہ نیب اور اس ملک کی معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس کی وجہ نیب کی متنازعہ کارروائیوں سے اس ملک میں سرمایہ کار ہوں یا صنعتکار ہوں یا بیورکریسی کام نہیں پارہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ نیب کی کارروائیوں کے باعث لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں، ان کے خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو حراساں کررہا ہے۔

انہوںنے کہا کہ کوئی شریف اور ایماندار آدمی کوئی کام نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ نیب کی جانب سے ان کی عزتیں اچھالنا ہے۔ انہوںنے کہا کہ نیب اس ملک کی ترقی کی رہ میں رکاوٹ ہے۔ ایک اور سوال پر انہوںنے کہا کہ پی ڈی ایم کو جو مشورہ صدر زرداری نے ان کو دیا تھا اس پر عمل درآمد کرتے تو آج پی ٹی ایم حکومت نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو آج طاقت اور توانائی کن اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے ہے اس کا فیصلہ خود عوام کو کرنا ہوگا کیونکہ ہم سے استعفیٰ نہ دینے پر ناراض ہونے والوں نے آج تک خود بھی استعفیٰ نہیں دئیے اور یہی بات پی ٹی آئی کی حکومت کو طاقت اور توانائی فراہم کررہی ہے۔ #