کرپشن ، رشوت ، بد عنوانیاں سرچڑھ کر بول رہی ہیں:لیاقت بلوچ

عمران خان نے سو دنوں میں انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کیا لیکن 1100 دنوں میں تبدیلی بدنامی او رسوائی بن گئی: نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

منگل 6 جولائی 2021 00:19

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 جولائی2021ء) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سیاسی انتخابی امور کمیٹی کے صدر لیاقت بلوچ نے کہاکہ مہنگائی بے روزگاری ، بجلی کی لوڈشیڈنگ ، گیس بحران ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ حکومتی نااہلی ، ناکامی اور بد انتظامی کی وجہ سے ہے ۔ عمران خان نے سو دنوں میں انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کیا لیکن 1100 دنوں میں تبدیلی بدنامی او رسوائی بن گئی ہے ۔

بجلی وافر موجود لیکن مہنگی ترین ہے ، عوام مہنگے بل برداشت کرتے ہیں لیکن عمران سرکار تین سالوں میں الیکٹرک ٹرانسمیشن کا نظام بھی ٹھیک نہیں کر سکی ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور میں عوامی وفود اور میڈیا سے گفتگو اور ڈیرہ غازیخان ، ملتان ، مظفر گڑھ ، شجاع آباد میں عوامی اجتماعات ، سیاسی عمائدین سے ملاقاتوں میں کیا۔

(جاری ہے)

لیاقت بلوچ نے کہاکہ کرپشن ، رشوت ، بد عنوانیاں سرچڑھ کر بول رہی ہیں ۔

کرپٹ مافیا منہ زور اور سینہ زور بنادیا گیا ۔ سود ، قرضوں ، گردشی قرضوں کی لعنت کا بوجھ بڑھتا جارہاہے ۔ ماضی کی حکومتوں کے ناکام ناکارہ اقتصادی نظام کا تسلسل جاری ہے ۔ ماضی کی نسبت عوام کو زیادہ بڑی تباہی اور مشکلات کا سامنا ہے ۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک ، ایک عالمی قوت کی گود سے اتر کر دوسری عالمی اقتصادی قوت کی سجدہ ریزی مسائل کاحل نہیں ۔

خود انحصاری ، خود اعتمادی ، سیاسی سماجی صف بندی اور معاشی نظام کا نفاذ ہی بحرانوں کا حل ہے ۔لیاقت بلوچ نے کہاکہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے دہشتگردی کے نیٹ ورک کو فعال رکھے ہوئے ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں فاشزم کی انتہا ہو گئی ہے ۔ پاکستان میں دہشتگردی کے ہر واقعہ کا ماسٹر مائنڈ فاشسٹ مودی ہے لیکن عمران خان سرکار بھارتی دہشتگر د کلبھوشن کو سفارتی سہولتیں اور قومی متفقہ کشمیر پالیسی کی حکمت عملی نہ بناکر فاشسٹ مودی کی سہولت کار ی کر رہی ہے ۔

امریکہ افغانستان سے ذلیل و خوار ہو کر پتلی گلی سے نکل گیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بہادر کشمیریوں کے ہاتھوں بھارتی شکست نوشتہ دیوار ہے ۔ کشمیر ، افغانستان ، فلسطین امت کے اہم ترین مسائل اور پاکستان کی سلامتی سے جڑے سلگتے ایشوز ہیں ۔حکومت ، اپوزیشن ، ریاستی ادارے متفقہ پالیسی اور ایکشن پلان بنائیں