کویت میںخاتون کے مشہور مقدمہ قتل کا فیصلہ،قاتل کو سزائے موت کا حکم

قاتل فہدصبحی محمدنے رمضان المبارک میں خاتون فرح حمزہ اکبرکو ان کے بچوں سمیت دن دہاڑے اغوا کرلیا تھا،رپورٹ

بدھ 7 جولائی 2021 11:10

کویت سٹی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جولائی2021ء) کویت میں ایک فوجداری عدالت نے ایک شادی شدہ خاتون کے بہیمانہ قتل کے مشہور مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا ہے اور30 سالہ قاتل کو سزائے موت کا حکم دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق قاتل فہدصبحی محمدنے رمضان المبارک میں خاتون فرح حمزہ اکبرکو ان کے بچوں سمیت دن دہاڑے اغوا کرلیا تھا۔پھر صباح السالم شہرمیں لے جاکر خاتون کو بچوں کے سامنے بے دردی سے چاقو کے پے درپے وار کرکے قتل کردیا تھا اور اس کی لاش ایک اسپتال کے دروازے پر چھوڑ کر فرار ہوگیاتھا۔

اس قاتل کاباپ کوئی غیرملکی اورماں کویتی شہری ہے۔وزارتِ داخلہ کے مطابق فہد صبحی کو قتل کے واقعہ کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا تھا،اس نے رشتہ سے انکار پر خاتون کی جان لی تھی اور عدالت کے روبرو اپنے جرم کا اقرار کیا تھا۔

(جاری ہے)

اب عدالت نے اس کو سزائے موت سنا دی ہے لیکن ابھی اس کو تختہ دار پر لٹکانے کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔کویتی میڈیا کے مطابق مقتولہ نے اس مبینہ قاتل کے خلاف دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ بھی دائر کررکھا تھا۔

اس شخص نے مقتولہ کا رشتہ مانگا تھا لیکن اس کے خاندان نے انکار کردیا تھا۔چند ماہ قبل قاتل کو مقتولہ کی بہن کی درخواست پرگرفتار کر لیا گیا تھا لیکن بعد میں عدالت نے اس کو ضمانت پر رہا کردیا تھا۔کویتی شہریوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا اور ملزم کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔سوشل میڈیا پر مقتولہ کی والدہ اور بہن کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔

اس میں وہ اسپتال کے باہرآہ وبکا کررہی تھیں اور حکام کو کوس رہی تھیں جنھوں نے قاتل کی دھمکیوں پر کوئی اقدام نہیں کیا تھا۔سیکڑوں کویتیوں نے ٹویٹراور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمز پرخاتون کے بہیمانہ قتل پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔انھوں نے صباح السالم جرم اور میں آیندہ نشانہ ہوں کے عنوان سے ہیش ٹیگ کے تحت اپنے جذبات کااظہار کیا تھا۔

بہت سے صارفین نے لکھا تھاکہ جب یہ قاتل خاتون کو دھمکیاں دے رہا تھا تو پھر حکام نے اس کو کیوں ضمانت دی،اس کو توزیرحراست رکھا جانا چاہیے تھا۔اپریل میں کویت میں خاتون کے اس اندوہناک قتل سے صرف دو ماہ قبل ہی خواتین نے جنسی ہراسیت کے خلاف ملک گیر مہم شروع کی تھی اور حکومت سے خواتین کے خلاف تشدد آمیز جرائم کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔