Live Updates

پی ڈی ایم کے بیانیے سے نہیں بلکہ آخری آپشن کو پہلے استعمال کرنے پر اختلاف ہے .یوسف رضا گیلانی

یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے اختلاف کیا ‘پیپلز پارٹی میرٹ پر فیصلے کرتی ہے.سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں قائدحزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کا انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 7 جولائی 2021 12:08

پی ڈی ایم کے بیانیے سے نہیں بلکہ آخری آپشن کو پہلے استعمال کرنے پر اختلاف ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 07 جولائی ۔2021 ) پاکستان کے سابق وزیر اعظم، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سنیئر وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے انکشاف کیا ہے کہ رواں برس مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے بعد انہوں نے لیڈر آف اپوزیشن بننے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی کو اپنا استعفیٰ دے دیا تھا‘انہوں نے یہ بتایا کہ پی ڈی ایم سے اختلاف استعفوں کے معاملے پر ہوا پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ استعفے اس وقت دیئے جائیں جب سارے آپشنزختم ہوجائیں مگر پی ڈی ایم آخری آپشن کو پہلے استعمال کرنے پر بضدتھی.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی انٹرویو میں یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ میں نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین کو درخواست کی کہ آپ میرا استعفیٰ قبول کرلیں اور میری جگہ کسی اور کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنا دیں مگر پارٹی نہیں مانی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات پر بات کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے اختلاف کیا پیپلز پارٹی میرٹ پر فیصلے کرتی ہے.

انہوں نے کہا کہ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے، ہمارا اور دیگر جماعتوں کا موقف ایک ہے اور ہم عوام کے حقوق کے لیے ایوان کے اندر اور باہر مل کر کام کر رہے ہیں‘انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے ہی مشترکہ اپوزیشن کا آئیڈیا دیا تھا اختلافِ رائے تب آیا جب پی ڈی ایم نے خواہش کی کہ ہم قومی اسمبلی کی سیٹوں سے استعفے دے دیں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم پی ڈی ایم کا بیانیہ مکمل طور پر قبول کرتے ہیں، ہم استعفے تیار رکھیں گے اور تمام آپشنزکے ختم ہوجانے کے بعدہم استعفے دیں گے.

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم سے اختلاف رائے تب ہوا جب ان کی جانب سے آخری آپشن کو پہلے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ پوری دنیا میں پارلیمنٹ اور سینیٹ میں زیادہ اکثریت والی اپوزیشن جماعت کا ہی اپوزیشن لیڈر منتخب ہوتا ہے. انہوں نے کہاکہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے 21 جبکہ ن لیگ کے 16 ووٹ ہیں، اس لحاظ سے سینیٹ میں سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ہے ہماری جماعت چاہتی تھی کہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی سیٹ ملنی چاہیے تھی اگر اس وقت استعفوں کی بات نہ ہوتی تو چیزیں مختلف ہوتیں.

مسلم لیگ نون کو پیپلز پارٹی سے شکوہ ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر ان سے اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں سے مشاورت نہیں کی سینیٹ انتخابات کے بعدایک پریس کانفرنس میں مسلم لیگ نون کے مرکزی راہنما احسن اقبال نے الزام عائد کیا تھا کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں اپنے ووٹ بڑھانے کے لیے مخصوص سینیٹرز کی مددلی تھی. یوسف رضا گیلانی کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ میں احسن اقبال کے الزامات کا جواب نہیں دینا چاہتا پیپلز پارٹی نے آزاد اور غیر جانبدار سیاستدانوں کے ووٹ لیے ہماری مہم کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے بھی کچھ اتحادیوں نے ہمیں ووٹ دیے اور بھی کئی لوگ مجھے اب بھی ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں.

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جہاں تک چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کی بات ہے ہمارے پاس اب بھی اکثریت ہے مجھے 49 جبکہ موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو 48 ووٹ ملے تھے ہم نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کررکھا ہے جس پر فیصلہ آنا باقی ہے دیکھیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے. دوبارہ وزیر اعظم بننے کے امکانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی مخلوط حکومت بنائی ہوئی ہے ہمیں دوبارہ یہ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہوگی تو اکثریت ہمیشہ بلاول بھٹو کے لیے ہی ووٹ کرے گی.

بلاول کے قومی اسمبلی کے فلور پر شاہ محمود قریشی پر الزامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ پارٹی چیئرمین مستند بات کرسکتے ہیں کیوںکہ وہی شو چلا رہے تھے پارٹی معاملات کو دیکھ رہی تھی اس لیے وہ بہتر جانتے ہیں ‘موجودہ ملکی وبین القوامی صورتحال اور وزیراعظم کی مشکلات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نے خود ہی حکومت کی مشکلات کی نشاندہی کردی اس وقت عوام بھی ایک انتہائی مشکل وقت سے گزر رہے ہیں اور ایسے میں افغانستان کے مسئلے پر ہمارے کافی ان کیمرا اجلاس ہوئے ہیں ہم کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی قسم کا اتفاق رائے اپنایا جائے جس طرح 2008 میں، میں نے اپنی وزارت عظی کے دور میں کیا تھا.

انہوں نے کہاکہ افغانستان کا مسئلہ تمام ملک وقوم کا مسئلہ ہے اس کے لیے ہماری حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز، دفتر خارجہ، اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لے کر افغانستان کے حوالے سے پالیسی بنائی تھی تو میرا خیال ہے کہ ابھی بھی ہمیں اتنی ہی محنت کرنی پڑے گی‘چین اوراویغور مسلمانوں کے معاملے پریوسف رضا گیلانی نے کہاکہ چین ہمارا دیرینہ ساتھی ہے ہماری حکومت میں بھی چین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن ہمیں دوسرے ملکوں کو بھی دیکھ کر چلنا ہے ہم متوازن طریقے سے چلنا چاہ رہے ہیں پاکستان کا اصل دوست چین ہے اور جہاں تک دیگر مسلم ممالک کی بات ہے، ان کی طرف ہمارا موقف بہت واضح ہے میرے دور میں بھی ہماری کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے بارے میں پالیسی بہت واضح تھی.

جب انٹرویو کرنے والی برطانوی صحافی نے ان سے دوبارہ اویغور مسلمانوں کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں جہاں زیادتی اور ظلم ہوگا ہم ان کی تکلیف میں برابر کے شریک ہیں ‘ وزیر اعظم کی حیثیت سے خاص طور پر بین الااقوامی انٹرویوز میں کیا انداز اپنانا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ایک ملک کے وزیر اعظم کو اہم مسائل پر بہت مختصر اور محتاط طریقے سے بات کرنے کی ضرورت ہے ملک کی پالسی پر ایکسٹیمپور یعنی بغیر تیاری کے بات کرنا مناسب نہیں ہے پالیسی سٹیٹمنٹ کو لکھا ہوا ہونا چاہیے، تاکہ کل کو کوئی آپ سے اختلاف نہ کرسکے.

کچھ حالیہ انٹرویوز میں وزیر اعظم عمران خان کے انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ وہ کافی کیڑوئل ہیں یعنی آرام دہ انداز میں اپنے انٹرویوز دیتے ہیںانہیں بہت زیادہ تیاری کرکے جانا چاہیے. امریکی وی لاگر سنتھیا رچی کے الزامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں تو انہیں ٹھیک سے جانتا بھی نہیں ہوں جو چیز حقیقت ہی نہیں ہے میں اس پر کیا کہوں‘اس سلسلہ میں پارٹی کی جانب سے جواب طلبی یا سیاسی جماعتوں میں ان کے کردار پر اٹھنے والے سوالات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نہ ہی میری پارٹی کی جانب سے کوئی جواب طلبی کی گئی نہ کسی مخالف سیاسی جماعت نے اس معاملے کو ایشو بنایا‘ تمام سیاسی جماعتیں میرا احترام کرتی ہیں انہوں نے کہا کہ اگر کرتے بھی ہیں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا وہ جو کہنا چاہتی ہیں کہتی رہیں میں کوئی تحقیق تو نہیں کر رہا .

1973 کے آئین کو اصل شکل میں بحال کرنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی قراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے منشور اور چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ تھا محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، ہم نے اس پر 85 فیصد عمل درآمد کیا میں سمجھتا ہوں کہ جمہوری لوگوں کے لیے آئین کی بحالی ایک بہت بڑی جیت ہے. سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کی جانب سے پیشکش کے حوالے سے سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں پارٹی کا ایک نظریاتی ورکر ہوں میں 1987 سے لے کر آج تک پیپلز پارٹی میں ہوں بلکہ میری دوسری نسل بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں ہے پیپلزپارٹی سے پہلا الیکشن میں نے 1988 میں لڑا تھا اور تب سے میں اسی پارٹی کا حصہ ہوں میں جیل میں تھاجیل جانے والوں کی بڑی مجبوریاں ہوتی ہیں وہ کافی سمجھوتے کر لیتے ہیں لیکن میں نے اپنی پارٹی تبدیل نہیں کی میں اس بات پر نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے کیا کیا پیشکشیں ہوئیں تھیں.


Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات