محکمہ خزانہ سندھ کے 336 ملازمین کی غیر قانونی بھرتیاں کیس

ہائی کورٹ کو سکیل1 سی14 تک کے ملازمین کا فیصلہ کرنے کاحکم 16 سکیل سے اوپر کی پوسٹوں پر بھرتیاں سندھ پبلک سروس کمیشن کے زریعے کی جائیں،سپریم کورٹ

بدھ 7 جولائی 2021 22:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 جولائی2021ء) سپریم کورٹ نے محکمہ خزانہ سندھ کے 336 ملازمین کی غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق اپیل پر سماعت کے موقع پر معاملہ ہائی کورٹ سندھ کو بھیجتے ہوئے مجاز عدالت کو سکیل 1سے 14 تک کے معاملے پر چھے ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ تمام 336 ملازمین کا ریکارڈ چیک کرنے کے بعد گریڈ ایک سے چودہ تک کے ملازمین کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر دے جبکہ 16 سکیل سے اوپر کی پوسٹوں پر بھرتیاں سندھ پبلک سروس کمیشن کے زریعے کی جائیں۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ سبطین محمود پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جن 10 ہزار لوگوں کے ٹیسٹ انٹرویو ہوئے ان کا ریکارڈ کہاں ہی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سبطین محمود نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ اس بابت محکمے سے کنفرم کر کے ہی بتا سکتا ہوں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ دس ہزار لوگوں کا سوال پیپر تو آپ بنا لیں گے جواب پیپر کا ریکارڈ عدالت کو دکھائیں، یہ کوئی طریقہ نہیں قانون کو فالو کئے بغیر بھرتیاں قبول نہیں،غیر قانونی بھرتیوں کے پیچھے کیا کچھ ہوتا ہے سب کو پتہ ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ایک ہی دن میں ٹیسٹ انٹرویوز مکمل کر کے فائنل بھرتیوں کی لسٹ بھی آویزاں کر دیں خدا کا خوف کریں، 16، 17،18 گریڈ کے ملازمین کی انڈیکشن ہو ہی نہیں سکتی،بیک ڈور بھرتیاں کر کے سول سرونٹ بنا دیا گیا انہیں مستقل نہیں کیا جاسکتا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ کے پانچ ڈویژن کراچی، سکھر، حیدر آباد، میر پور خاص اور لاڑکانہ میں ایک ساتھ ٹیسٹ انٹرویوز ہوئے،336 میں سے 10 کی ڈگریاں ویرفیکشن نہیں ہوئیں تو انہیں نوکری سے فارغ کیا گیا۔ملازمین کے وکیل نے موقف اپنایا کہ2011 میں بھرتی ہوئے نوکری کرتے ہوئے 10 سال کا عرصہ گزر گیا۔درخواست گزار نے بتایا کہ غیر قانونی طریقے سے بھرتیاں کی گئیں میڈیا کوریج موجود ہے عدالت پیمرا سے ریکارڈ منگوائے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہم کیس ہائیکورٹ کو بھجوا رہے ہیں وہاں سب کا کیس سنا جائے گا اور تحقیقات بھی ہوں گی ۔