افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے اثرات کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد، اتفاق اور یکجہتی سے کیا جاسکتا ہے، خواجہ آصف

پارلیمان میں انتخابی اصلاحات اور پانی کے مسائل سمیت تمام قومی ایشوز پر سیاست سے ہٹ کر پیشہ وارانہ اور تکنیکی مباحثہ ہونا چاہیے،اسد قیصر موروثی سیاست کی وجہ سے سیاست اور سیاستدانوں پر عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے، سیاسی مفادات کے لئے طلبا کے مستقبل سے کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کی تعلیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، امتحانات کا فیصلہ تمام وفاقی اکائیوں نے مل کر کیا تھا، اس فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے، شفقت محمود کا خواجہ آصف کو جواب کہا گیا پارلیمان طاقتور ووٹ کو عزت دو کی وجہ سے ہو گا،آئیں مل کر ایک ایسے انتخاب کا بندوبست کریں جس پر کوئی اعتراض نہ کر سکے،راجہ پرویز اشرف ہماری افواج پاکستان نے جس قدر قربانیاں دی وہ سب کے سامنے ہیں،افغانستان کی صورتحال سے آگاہ رکھنا ضروری ہے، سابق وزیر اعظم کا خطاب

منگل 13 جولائی 2021 00:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جولائی2021ء) پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے اثرات کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد، اتفاق اور یکجہتی سے کیا جاسکتا ہے،اسٹیبلشمنٹ میں، سیاستدان، فوج، عدلیہ، میڈیا اور بیورو کریسی میں شامل بااثر ترین لوگ ہیں،73 سالوں میں کیا پایا اس کا جواب دیکھنے کیلئے کسی کے پاس جانے کی نہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے،جب تک ملک کے بائیس کروڑ عوام پاور گیم میں شامل نہیں ہوں گے حالات نہیں بدلیں گے۔

پیر کو قومی اسمبلی میں صدارتی خطاب پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان خطہ کی صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا،چند روز قبل امریکی رات کے اندھیرے میں دو ٹریلین ڈالر خرچ کرکے اور 3500 فوجی مروا کے واپس چلے گئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ لوگ افغانستان چھوڑ کر جارہے ہیں، ہم افغانستان کی عوام کے لئے دعاگو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان پہلے روس کی مداخلت اور بعد میں نیٹو کی مداخلت کی وجہ سے جنگ کا اکھاڑہ بنا رہا۔

اللہ کرے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور ایک پائیدار حکومت قائم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی اب غور کرنا چاہیے کہ جو فیصلے ہم نے تزویراتی گہرائی کے لئے ماضی میں کئے وہ کیسے ثابت ہوئے۔ اب ہمیں دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت اس ایوان میں آئے ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کی ہم بات اس لئے کرتے ہیں کہ آئین کی دی ہوئی طاقت کو استعمال کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اسٹیبلشمنٹ میں، سیاستدان، فوج، عدلیہ، میڈیا اور بیورو کریسی میں شامل بااثر ترین لوگ ہیں۔ ہم نے 73 سالوں میں کیا پایا اس کا جواب دیکھنے کے لئے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لئے ماضی میں ہم نے اور بین الاقوامی برادری نے فیصلے کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں اس کا ایک یہی حل ہے کہ ہمیں صاف شفاف انتخابات کرانے ہوں گے۔ اس ایوان کے تمام ارکان ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر پارلیمنٹ کو عوامی امنگوں کا ترجمان بنائیں،جب تک ملک کے بائیس کروڑ عوام پاور گیم میں شامل نہیں ہوں گے حالات نہیں بدلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں گزشتہ تیس چالیس سال کا خلفشار ختم ہو۔

اگر ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہ ہوئے تو سات سمندر پار کے ممالک ہمارا کیا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ طاقتور ہوگی تو سارے مسائل حل ہوں گے۔بحث کے دوران خواجہ آصف کی تقریر کے بعد سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اہم ایشوز پر مباحثہ کریں، انتخابابی اصلاحات ہیں، پانی کے مسائل ہیں، ان پر کھل کر بات چیت ہونی چاہیے۔

اس حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے میری بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی گفتگو سیاست سے ہٹ کر پیشہ وارانہ اور تکنیکی ہونی چاہیے۔بحث کے دوران وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں 72 سالہ تاریخ کا گہرا تجزیہ پیش کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کالونیل ریاستوں مبں بعض ادارے کمزور اور بعض طاقتور ہوتے ہیں۔

یہ فطری بات ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے معاشروں میں آزادی کے بعد بیورو کریسی اور ملٹری نے زیادہ اختیارات لئے۔ خواجہ آصف کی یہ بات بھی درست ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کو سیاستدانوں نے مضبوط کیا ہے اور سیاستدانوں نے اپنے لئے جگہ بنانے کے لئے سمجھوتے کئے ہیں تاہم سیاستدانوں نے کارکردگی سے اپنی ساکھ بنانی ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کی کارکردگی کمزور رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ تیس تیس سال تک حکومتیں کرنے کے باوجود عوامی مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔

انہوں نے کہاکہ عوام نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح موٹر سائیکلوں پر آنے والے مرسڈیز میں بیٹھ کر گئے، جن کے پاس ذاتی مکان نہیں تھا وہ بیرون ممالک محلات بنانے لگے، اس سے سیاستدانوں کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں ہوا ہے، سیاستدانوں کو پہلے عوام کے لئے مثال بننا چاہیے، اگر سیاستدان عوام کی خواہشات اور امنگوں کے لئے آئے ہیں اور اس کی بجائے وہ اپنی تجوریاں بھرتے رہیں تو اس سے ہمارا تاثر کیا بنے گا۔

اس لئے تجزیہ کرتے وقت بے لاگ تجزیہ کرنا چاہیے۔ اگر حقائق اور مفاہمت کمیشن کی طرف جانا ہے تو ہمیں حقائق قوم کو بتانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کا غیر متنازعہ ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی عمل کو اشرافیہ نے اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔ کیا سیاستدانوں میں اشرافیہ نہیں ہے، کیا غریب ورکر اس ایوان کا رکن بن سکتا ہی جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو کیا اس میں نئے لوگوں کی گنجائش موجود ہوتی ہے، سیاسی جماعتوں میں لیڈر شپ بھی وراثتی ہے، یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور تیسری دنیا کی ایک حقیقت ہے۔

عوام کو نظر آتا ہے کہ آج یہ لیڈر ہے، کل ان کے بیٹے ، نواسے اور رشتہ دار اقتدار میں آئیں گے۔ اس سے سیاست اور سیاسی عمل پر لوگوں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ ہمیں ایشوز اور عوام کے مفاد کی سیاست کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے تعلیم پر اثرات مرتب ہوئے، پچھلے سال ساری اکائیوں،جس میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت بھی شامل ہے، کے وزرا تعلیم نے مل کر فیصلہ کیا کہ اگلے سال ہم نے امتحان لینا ہے کیونکہ امتحانات طلبا کی صلاحیت جانچنے کا بہترین طریقہ ہے۔

پچھلے سال ہم نے طلبا کو اس لئے پروموٹ کیا کیونکہ دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبا ایک ایک سال کا امتحان دے چکے تھے۔ کوویڈ کی وجہ سے پچھلے سال سارے سکول زیادہ عرصے تک بند رہے جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم و تدریس اس طریقے سے نہیں پہنچی جس طرح پہنچنی چاہیے تھی۔ اس تناظر میں بین الصوبائی وزرا تعلیم کی کانفرنس میں بعض فیصلے ہوئے جس کے تحت نصاب کو چالیس فیصد تک کیا گیا۔

امتحانات کی تاریخوں کو آگے کیا گیا، پہلے امتحانات کو مئی تک ملتوی کیا گیا، اس کے بعد اسے جولائی میں کرنے کا اعلان ہوا تاکہ بچوں کو تیاری کے لئے زیادہ وقت مل سکے۔ میٹرک کے طلبا کے لئے آٹھ مضامین میں سے چار جبکہ ایف اے ایف ایس سی کے طلبا و طالبات کے لئے 7 مضامین میں سے 3 مضامین میں امتحانات لینے کا فیصلہ ہوا۔ سلیبس کو بھی کم کیا گیا۔

مجموعی طور پر امتحانات میں تین ماہ کی توسیع کی گئی۔ ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے بعد یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلے شروع ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے اس فیصلے کا اکثریتی طلبا نے خیرمقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا، سوائے ان چند بچوں کے، جن کا پڑھنے کا ارادہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے، مجھے افسوس ہے کہ سستی شہرت اور سیاست کے لئے یہ سب کیا گیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بلوچستان میں امتحانات ہو چکے ہیں، سندھ، خیبرپختونخوا، وفاق اور آزاد کشمیر میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک میں 30 بورڈز موجود ہیں، وفاقی حکومت کے تحت ایک بورڈ ہے، باقی بورڈز صوبوں کے پاس ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو امتحانات نہ لینے کا حکم ہم نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ سارے فیصلے مل کر اور سیاست سے ہٹ کر کئے گئے، مگر اس کے باوجود اس ایوان میں مزید وقت مانگنے کی بات کی گئی ہے۔ بچوں سے سیاسی مقاصد کے لئے تالیاں بجوانے کے اس طرز عمل کی میں مذمت کرتا ہوں۔ میرے بارے میں کہا گیا کہ میں بھاگ گیا ہوں اور اشتہار دینا چاہیے، اشتہار ان لوگوں کے بارے میں دینا چاہیے جو واقعی بھاگ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 95 فیصد بچے امتحانات دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ خدارا اس ایشو پر سیاست نہ کی جائے اور کوویڈ کی وجہ سے جو نظام بنایا گیا ہے اور جو فیصلے کئے گئے ہیں اس کو چلنے دینا چاہیے۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ پارلیمان کو طاقتور بنانے کی بات ہوئی ہے ،پارلیمان کو طاقتور بنانے کی باتیں کب سے سن رہے ہیں،جب ہم سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں تو ہمیں بار بات اس بات کی رٹ کیوں لگانی پڑتی،کہا گیا پارلیمان طاقتور ووٹ کو عزت دو کی وجہ سے ہو گا،آئیں مل کر ایک ایسے انتخاب کا بندوبست کریں جس پر کوئی اعتراض نہ کر سکے،آزاد کشمیر میں الیکشن ہو رہا ہے جو کہ اہم ترین الیکشن ہے،ہمارے کشمیر کے وزیر فرماتے ہیں جو ہمیں ایک ووٹ کی برتری دے گا اسے ایک کروڑ دیں گے،ایسی باتیں کر کے کیا تاثر دینا چاہتے ہیں،کیا وزیراعظم صاحب نے وزیر کشمیر کی بات نہیں سنی،وزیراعظم اپنے وزیر کے خلاف کیا ایکشن لیں گے،قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے،ہم لوگ کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں،ایک وکیل کا بیٹا وکیل بن جائے اور تاجر کا بیٹا تاجر بن جائے تو کیا اس پر اعتراض کر سکتے ہیں،یہ کہنا کہ موروثی سیاست ہے تو یہ غلط بات ہے ،عام آدمی بھی سیاست میں آ سکتا ہے ،میں عام ورکر وزیراعظم بن گیا ،افغانستان کی صورتحال پر کھل کر بحث ہوئی جوکہ خوش آئند بات ہے،اس طرح کی بریفنگز مزید ہونی چاہیے اور حالات سے ذیادہ آگاہی ہونی چاہیے،ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیئشن کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔

انہوںنے کہاکہ ہماری افواج پاکستان نے جس قدر قربانیاں دی وہ سب کے سامنے ہیں،افغانستان کی صورتحال سے آگاہ رکھنا ضروری ہے،اس طرح ملک نہیں چلتے ہوتے ،آپ کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے،جب آپکے گھر کو خطرہ ہو تو سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے،پاکستان ہمارا گھر ہے اس کے لیے ہمیں بہت سارے معاملات پر سب کو مل کر تجزیہ کرنا پڑے گا،ہمیں اپنی معیشت،اندرونی حالات،سرحدوں اور دوست ممالک کا بیٹھ کر تجزیہ کرنا پڑے گا،تمام معاملات کا جائزہ لے کر ہی خارجہ پالیسی بنائے جا سکتی ہے، 1965 کی جنگ میں بھی تمام اپوزیشن اکٹھی ہو گئی تھی،دو برس قبل بھی بھارتی طیارہ مار گرایا گیا تو سب اکٹھے ہوئے ،یہ پاکستانیت ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو پاکستان کے لیے اکٹھا کرتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ راجا پرویز اشرف نے بھی حکومت سے طلبا کو امتحانات کی تیاری کے لیے وقت دینے کا مطالبہ کر دیا،امتحانات کے حوالے سے بچوں کے جائز مطالبات تھے،وزیر تعلیم نے کہا اپوزیشن نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہی ہے،اسلام آباد میں چالیس سے پچاس طلبا کو مار پیٹ کی گئی،بچوں کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے ہے انہیں پڑھائی بھی نہیں کرنی دی گئی،بچے کہہ رہے ہیں ہماری تیاری نہیں ہے تیاری کے لیے وقت دیا جائے،بچوں کو چھ سے آٹھ ہفتوں کا وقت تیاری کے لیے دینا چاہیے تھا،آج آپ امتحانات لے لیں گے تیاری نہ ہونے کے باعث اکثریت فیل ہو جائیں گے۔

عالیہ حمزہ نے کہاکہ کہا جاتا ہے ہم سے حکومت سنبھالی نہیں جاتی ،ہماری ایکسپورٹ 31.2 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ،ہمارے دور میں ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ،ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 15 ارب ڈالر سے بڑھ گئی جو تاریخی ہے،آئی ٹی سیکٹر 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ سے بڑھ گئی،میں ان بیرون ملک پاکستانیوں کو سلام کر تی ہوں کہ ترسیلات زر 29 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ،تین سالوں میں ہمارا تجارتی خسارہ 7 ارب ڈالر کم ہوا۔