ہمارے بچوں کی تعلیم بمقابلہ ولایتی بچوں کی تعلیم

DW ڈی ڈبلیو منگل 13 جولائی 2021 13:40

ہمارے بچوں کی تعلیم بمقابلہ ولایتی بچوں کی تعلیم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2021ء) ساؤتھ افریقہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ تحقیقی ذہن کا مالک تھا۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیےامریکا پہنچ گیا اور پھر ایک دن اس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس بچے کو دنیا آج ایلون مسک کے نام سے جانتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے والے اس شخص کی ٹویٹر پر ایک ٹویٹ اسٹاک مارکیٹ کا رخ بدل دیتی ہے۔

لیکن اُسے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا ملک کیوں چھوڑنا پڑا؟

ایلون مسک اگر پاکستانی ہوتا تو؟

تھوڑی دیر کے لیے فرض کیجیے کہ ایلون مسک پاکستان میں پیدا ہوا ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس کی ماں اتنے قابل بیٹے کی شادی کے لئے خوبصورت ترین لڑکیاں تلاش کر رہی ہوتی۔ ایلون بھی کسی ٹاک شو میں بیٹھا کسی سیاسی تنظیم کے حق میں منہ سے جھاگ اڑاتا دلائل دے رہا ہوتا۔

(جاری ہے)

جب وہ یہ کہتا کہ گاڑیاں بجلی سے چلنے چاہئیں تو اس کا باپ اسے بجلی کا بل دکھا کر سمجھاتا کہ بیٹا یہ ناممکن ہے۔ پھر وہ بھی کہیں نوکری کرتا اور بازار میں اپنے بچے کے لیے پیمپر ڈھونڈ رہا ہوتا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں آزاد سوچ کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ ایسی کوئی بھی بات کوئی بھی سوچ جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہو اسے رد کر دیا جائے گا۔

لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایلون مسک کو بھی زندگی میں ایسے بہت سے لوگ ملے، جنہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ کچھ لوگوں نے اسے پاگل سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ اس کے دیکھے گئے خوابوں کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھا۔ لیکن پھر اس کو ایسے لوگ بھی ملے، جو اسی کی طرح خواب دیکھتے تھے اور ان خوابوں کی تکمیل چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی انقلابی تبدیلیاں لانے والے لوگ آج تک ہمارے ملک کے افق پر کیوں نمودار نہ ہوئے؟ اعلیٰ دماغ اور انقلابی سوچ رکھنے والے لوگ اس ملک میں پیدا ضرور ہوئے مگر کامیابی سے ہمکنار کسی اور ملک میں ہوئے۔

پاکستانی بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں

ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں کسی ملک کی میراث ہرگز نہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ذہانت کی کمی نہیں، لیکن ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کی وجوہات جاننے کے لیے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کم عمر بچوں میں بیک وقت کئی زبانیں سیکھنے کی اہلیت ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک کم عمر بچے کو کئی علوم انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سکھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کچھ اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ جس میں بچے کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔

بچے کو علم کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ سارا زور اسی بات پر ہوتا ہے کہ جو کچھ کتاب میں لکھا گیا ہے، اسی مواد کو استعمال کرتے ہوئے امتحانی کاپی پر چند سوالات کے جوابات دے دیے جائیں۔

بچے کی دماغی استعداد اور ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے والدین بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے، چھوٹے بچے پر اتنا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

ہم اپنے بچوں سے محبت کا ثبوت اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ انہیں بہت چھوٹی عمر سے ہی مختلف طرح کے برقی آلات فراہم کر دیے جائیں۔ اپنی استطاعت سے بڑھ کر انہیں آسائشیں فراہم کی جائیں۔

ہماری محبت کا تقاضہ ہے کہ بچے سارا دن ویڈیو گیمز کھیلیں یا ٹک ٹاک ویڈیوز بنائیں۔ یا پھر ان کا دھیان اسی بات پر رہے کہ کون سا فیشن نیا آیا ہے۔ بچوں پر زیادہ پیار آئے تو انہیں کسی ریسٹورنٹ میں کچھ کھلانے لے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہی تو کھیلنے کودنے اور کھانے پینے کے دن ہیں۔

اکثر والدین یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جب تک ہماری زندگی ہے عیش کر لینے دو پھر ذمہ داریاں پڑیں گی تو خود ہی کام کرنے لگیں گے۔

ایک عمر اسی چورنگی کے چکر کاٹ کر جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو پھر اپنے بچوں کو بھی اسی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ ایسے کتنے والدین ہیں، جنہوں نے اپنے بچوں کو زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی سوچ دی ہو؟ یا جنہوں نے اپنے بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کی سنجیدہ کوشش کی ہو؟

فرض کیجئے کہ نوے کی دہائی میں آپ کا بچہ آپ سے کہتا کہ کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے کاروبار کی تشہیر انٹرنیٹ پر کریں۔

سوچیں کہ آپ اس کی بات کو کتنی سنجیدگی سے لیتے؟ جس زمانے میں ہماری قوم ٹائی ٹینک مووی دیکھ کر خود کو مغربی دنیا کے آرٹ کا دلدادہ سمجھ کر خوش تھی، اس وقت اگر کوئی یہ کہتا کہ آنے والے وقت میں ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم کی ضرورت ہوگی تو یقیناً اسے پاگل یا دیوانہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا۔

ہمارے یہاں تو سب سے پہلے بچے کے گریڈ اور نمبر دیکھ کر اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

ایسے منفرد آئیڈیاز دینے والا بچہ اگر اسکول میں اچھے گریڈ نہ لیتا ہو تو پھر صورت حال مزید غیر سنجیدہ رخ اختیار کر لے گی۔ والدین اور معاشرے کے طعنے اور طنز کے نشتر ہی اس کا جینا دوبھر کئے رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں آنے والے انقلاب میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس میدان میں ہم باقی دنیا سے سالوں نہیں بلکہ صدیوں پیچھے ہیں۔

ہمارے بچے ٹیکنالوجی کا جس انداز میں استعمال کر رہے ہیں، وہ انہیں مزید تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔

ہمارا علمی معیار

ہم میں سے اکثر والدین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے رشتے دار بچوں کے مقابلے میں ہمارے بچے زیادہ قابل اور پڑھے لکھے نظر آئیں۔ اور ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے رشتے دار اور ان کے بچے فرفر انگریزی بولتے نظر آئیں تو ان سے زیادہ قابل کوئی نہیں ہو سکتا۔

ہمارا کسی کی عالمی سطح پرکھنے کا انداز ہی نرالا ہے۔ یعنی منہ ٹیڑھا کر کے فرفر انگریزی بولنا ہی قابلیت کی معراج ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ انگریزی زبان میں کسی بھی موضوع پر معیاری کتب بآسانی دستیاب ہیں۔ لہذا اس زبان پر عبور حاصل کرنا یقیناً ضروری ہے۔ لیکن سارا زور صرف زبان سیکھنے پر ہی دینا ہے یا علم کا حصول بھی ضروری ہے۔

ایلون مسک کی مثال دینے کا مقصد یہی تھا کہ وہ بھی ایک بچہ تھا، جس نے اچھے حالات میں پرورش نہیں پائی۔

لیکن فرق یہ تھا کہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اس ملک میں پروان چڑھنے دیا گیا اور آج اس کی بدولت پوری دنیا میں ٹیکنالوجی ایک نئی سمت میں ترقی کے زینے چڑھ رہی ہے۔ جس عمر میں دنیا کے دوسرے ممالک کے بچے راکٹ ڈیزائن کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عمر میں ہمارے بچے عیدی کے پیسوں سے پلاسٹک کی گن خریدنے کا خواب دیکھتے ہیں یا ویڈیو گیمز میں اپنا وقت برباد کر رہے ہوتے ہیں۔

والدین بھی چاہتے ہیں کہ بچہ تعلیم یافتہ ہونے کے بجائے صرف ڈگری یافتہ ہو جائے۔ اس کے لئے چاہے نقل کرنی پڑے یا رشوت دینی پڑے۔ اس کے بعد سفارش سے ایک نوکری حاصل کر کے شادی کر لی جائے۔ کسے پروا ہے کہ موجودہ دنیا کو کن خطرات کا سامنا ہے۔ ہمارے آنے والی نسلوں کو کون کون سے چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ ہمیں ان کی آسانی کے لیے آج کس سمت میں چلنا ہو گا۔

ہمارے خواب تو بس صرف یہی ہیں کہ ایک سرکاری نوکری ہو، اس کے بعد ایک خوبصورت چھوکری ہو۔ ہم میں سے تمام والدین اپنے بچوں کے لئے بے حد جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن اس جدوجہد کا پھل صرف ایک خاندان کی خوشحالی تو ہوتا ہے۔ لیکن انسانیت کی بھلائی کے لئے نہ ہم نے کوئی خواب دیکھا اور نہ اپنے بچوں کی آنکھوں میں سجایا۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن جس بھیڑ چال کا ہم شکار ہیں اس کے نتیجے میں ہم صرف ایک جاندار تو کہلا سکتے ہیں۔ لیکن ایک بامقصد زندگی گزارنے والا انسان ہر گز نہیں بن سکتے۔