موجودہ چیئرمین نیب کے دور میں 533 ارب ریکور ہوئے

نیب کے قیام سے 2016 تک کے 17 سالہ دور میں نیب کل 287 ارب روپے ریکور کروا پایا تھا فی الوقت 1300 ارب مالیت پر مشتمل 1273 مقدمات کے ریفرنسز معزز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں

منگل 13 جولائی 2021 23:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جولائی2021ء) جسٹس (ر)جاوید اقبال نے بطور چیئرمین نیب منصب سنبھالنے کے بعد نیب میں متعدد اصلاحات متعارف کروائیں جنکی بدولت نیب کی مجموعی کارکردگی میں ماضی کے 17 سالہ دور کی نسبت خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا شاخسانہ تھا کہ جسٹس جاوید اقبال کے اکتوبر 2017 سے تاحال (ساڑھے 3 سالہ دور میں) نیب کرپٹ عناصر سے 533 ارب بلواسطہ و بلاواسطہ ریکور کرواچکا ہے، جبکہ نیب کے قیام سے 2016 تک کے 17 سالہ دور میں نیب کل 287 ارب روپے ریکور کروا پایا تھا۔

نیب کو اپنے قیام سے مارچ 2021 تک کل 4 لاکھ 87 ہزار 9 سو 64 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 4 لاکھ 79 ہزار 6 سو 85 شکایات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا چکا ہے۔

(جاری ہے)

اپنے قیام سے مارچ 2021 تک نیب نے 15 ہزار 9 سو 30 کمپلینٹ ویری فکیشن (CV) کا آغاز کیا جن میں سے 15 ہزار 1 سو 54 سی ویز کو مکمل کر لیا گیا۔اس وقت نیب میں کل 776 شکایات پر تحقیقات (CVs) کی جارہی ہیں۔نیب نے اپنے قیام 1999 سے مارچ 2021 تک کل 10 ہزار 41 انکوائریوں کا آغاز کیا جن میں سے 9 ہزار 1 سو 14 انکوائریوں کو مکمل کر لیا گیا۔

نیب اس وقت کل 927 انکوائریوں میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔21 سالوں کے دوران نیب میں کل 4 ہزار 5 سو 98 انویسٹی گیشنز کی منظوری دی گئی جن میں سے 4 ہزار 2 سو 87 انویسٹی گیشنز کو مکمل کر لیا گیا تاہم فی الوقت نیب میں کل 311 انویسٹی گیشنز جاری ہیں۔نیب کی جانب سے معزز احتساب عدالتوں میں 1999 سے رواں سال مارچ تک کل 3682 ریفرنسز دائر کئے گئے جن میں سے 2413 ریفرنسز پر فیصلے بھی صادر کروالیے گئے۔

فی الوقت 1300 ارب مالیت پر مشتمل 1273 مقدمات کے ریفرنسز معزز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔نیب کے قیام سے مارچ 2021 تک لگ بھگ 2413 ریفرنسز پر فیصلے صادر کروائے گئے ہیں جن میں نیب کی کامیابی کا تناسب 66 فیصد سے بھی زائد رہا ہے جو کہ کسی بھی تحقیقاتی ادارہ کیلئے رول ماڈل ہے۔179 میگا کرپشن مقدمات پر موجودہ صورت حال کیمطابق 63 مقدمات منطقی انجام تک پہنچائے جاچکے ہیں جبکہ فی الوقت 95 مقدمات مختلف معزز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

پاکستان اور چائنہ نے بدعنوانی کے تدارک کیلئے باہمی طور پر ایم او یو (MoU) پر بھی دستخط کئے ہیں جسکی بدولت CPEC منصوبہ جات میں شفافیت پر مبنی کام کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔جسٹس جاوید اقبال کے دور اقتدار میں نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا چیئرمین بھی مقرر ہوا۔اگرچہ دور حاضر میں سارک ممالک کیجانب سے نیب کو رول ماڈل کے طور پر تصور کیا جاتا ہے جو قابل رشک ہے۔

یہ بات پاکستان کیلئے ایک اعزاز سے کم نہیں کہ قومی احتساب بیور 2007 سے تاحال UNCAC کا فوکل ڈیپارٹمنٹ تصور کیا جاتا ہے۔چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کیجانب سے بزنس کمیونٹی کے جائزمفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکسز سے متعلقہ تمام مقدمات کو ایف بی آر اور کسٹم ڈیپارٹمنٹ کو ریفر کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔نیب کے تمام ریجنز میں ڈائریکٹر لیول کے آفیسر کی نگرانی بزنس ڈیسک کے قیام کے احکامات بھی صادر کیے گئے۔

بزنس ڈیسک کے قیام کا بنیادی مقصد بزنس کمیونٹی کو درپیش شکایات و مسائل کو فوری طور پر حل کرنا تھا۔جسٹس جاوید اقبال کے دور میں موجودہ عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید اینٹی کرپشن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔اینٹی کرپشن اکیڈمی میں نیب تفتیشی آفیسران کو مختلف ایکسپرٹس کے زریعے جدید خطوط پر وائٹ کالر کرائمز پر تربیت فراہم کی جارہی ہے۔

چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے ویڑن کی عکاسی کرتے ہوئے نیب تحقیقات کیلئے کمبائینڈ انویسٹی گیشن ٹیم (CIT) کے نظام کو متعارف کروایا گیا تاکہ تحقیقات میں فرد واحد کی اجارہ داری کے تصور کی نفی کی جاسکے۔سی آئی ٹی میں ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، تفتیشی آفیسر اور لیگل ایڈوائزر پر مشتمل افسران کا ایک گروپ تشکیل دیا جاتا ہے جو کیس کی تحقیقات کیلئے اپنا تجربہ اور باہمی محنت کا استعمال کرتے ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال نے منصب سنبھالتے ہی شکایت کی تحقیقات، انکوائری اور انویسٹی گیشن سے ریفرنس دائر کرنے تک 10 ماہ کے وقت کا تعین کیا۔کرپشن مقدمات کی تحقیقات مکمل کرنے کیلئے 10 ماہ کے وقت کا تعین کرنے کا اصل مقصد کیسز میں غیر ضروری طوالت کو رد کرنا تھا جبکہ بین الاقوامی طور پر بھی اس نوعیت کے فاسٹ ٹریک کی کوئی مثال نہیں ملتی۔موجودہ چیئرمین نیب نے اپنا منصب سنبھالتے ہی راولپنڈی میں نیب کی پہلی فارینسک سائینس لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا۔

چیئرمین نیب نے نیب افسران کی کارکردگی کو جانچنے اور مستحکم کرنے کیلئے سالانہ بنیادوں پر "گریڈنگ سسٹم" متعارف کروایا۔گریڈنگ سسٹم کی مدد سے ناصرف آفیسران کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ انہیں کارکردگی میں مزید بہتری لانے کیلئے مکمل رہنمائی فراہم کء جاتی ہے۔چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے نیب میں دائر ہونیوالی ہر شکایت کو ایک مخصوص نمبر الاٹ کروانے کیلئے "ایم ای ایس سسٹم" بھی متعارف کروایا۔

اس سسٹم کے تحت آج تک نیب میں موصول ہر شکایت کو ایک کلک کی مدد سے ناصرف تلاش کیا جا سکتا ہے بلکہ اس پر ہونیوالی مکمل کاروائی کا ریکارڈ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی ’’احتساب سب کیلئے ‘‘کی پالیسی بدعنوان عناصر کیلئے خوف کی علامت کی طور پر ظاہر ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ گیلانی و گیلپ سروے کیمطابق پاکستان کی 59 فیصد عوام نے نیب اور نیب کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔نیب کے اقدامات پر ملکی و بین الاقوامی اداروں جیسے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، پلڈاٹ، ورلڈ اکنامک فورم، مشال پاکستان وغیرہ نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔