سینٹ ، اپوزیشن کا علی امین گنڈا پور کے شہید ذو الفقار علی بھٹو بارے بیان پر شدید احتجاج ،رضا ربانی نے حکومت مخالف نعرے لگوادیئے ، پھر معذرت کرلی

ہمیں اسلام آباد اور راولپنڈی سے محب وطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ،ہمارا سرٹیفکیٹ امریکہ کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہے،بھٹو نے زندگی دی مگر اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا،جس سیاست کی طرف جارہے ہیں اس سے تباہی آئے گی ،اس طرح ہمیں میرے عزیز ہم وطنوں کو سنا ہے ،کیا ہم دوبارہ وہ سنے جارہے ہیں، یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے،ہم پھانسی کے پھندے سے جھومیں گے، رضا ربانی ، شیری رحمن ، مولانا بخش چانڈیو کا خطاب جو زبان بھٹو، نواز شریف اور مریم کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ قابل مذمت ہے،اپوزیشن کے قائد ایوان کو بولنے سے روک دیا اگر اپوزیشن نے یہی رویہ رکھا تو میں اپنے ممبران کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائیگا، قائد ایوان شہزاد وسیم اپوزیشن کا پھر احتجاج ، چیئر مین ڈائس کا گھیرائو کرلیا ان کے لیڈروں نے جو زبان استعمال کی سب سے پہلے اس پر معافی مانگنی چاہیے ، پاکستان کے مخالف بھی آج ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں، شہزادوسیم عمران خان کو اقتدار میں آنے کے لیے شارٹ کٹ راستے ملے ، شارٹ راستے ٹھکرا دئیے ،یہاں پر محب وطن وہ لوگ ہیں دوائی لینے جاتے واپس نہیں آتے، فیصل جاوید

بدھ 14 جولائی 2021 13:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جولائی2021ء) سینٹ میں اپوزیشن نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے شہید ذو الفقار علی بھٹو بارے بیان پر شدید احتجاج کیا ، سابق چیئر مین سینٹ رضا ربانی نے ایوان میں نعرے لگا دیئے بعد میں معذرت کرلی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے کہا ہے کہ ہمیں اسلام آباد اور راولپنڈی سے محب وطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ،ہمارا سرٹیفکیٹ امریکہ کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہے،بھٹو نے زندگی دی مگر اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا،جس سیاست کی طرف جارہے ہیں اس سے تباہی آئے گی ،اس طرح ہمیں میرے عزیز ہم وطنوں کو سنا ہے ،کیا ہم دوبارہ وہ سنے جارہے ہیں، یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے،ہم پھانسی کے پھندے سے جھومیں گے۔

بدھ کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں شروع ہوا۔

(جاری ہے)

وقفہ سوالات کے بعد اپوزیشن نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بارے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔سینیٹر مولابخش چانڈیو نے کہاکہ اس حکومت کے بعد زبان وزیر نے بھٹو صاحب کے خلاف بات کی ہے یہ تصادم کی طرف اختلاف رائے کو لے کر جانا چاہتے ہیں ،ایوان میں اپوزیشن نے وفاقی وزیر کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

سابق چیئر مین سینٹ میاں رضاربانی نے ایوان میں نعرے لگائے جن میں ’’بد کلامی کی سر کار، غنڈاگردی کی سرکار نہیں چلے گی ‘‘تاہم چیئرمین سینیٹ نے نعرے لگانے سے منع کردیا جس کے بعد رضا ربانی نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ یہ افسوس کی بات ہے ۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ علی امین گنڈا پور پر پرچہ ہوا ہے ،ان کو کشمیر میں الیکشن مہم کیلئے بھیج دیا گیا آپ کون ہوتے ہیں غداری کا الزام لگانے والے ،90ہزار فوجی بھٹو پاکستان لیکر آئے،یہ کہاں کی سیاست ہے،گندی زبان استعمال کی جارہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اعظم نذیر تاڑار نے کہاکہ گزشتہ روز جو زبان بھٹو، نواز شریف اور مریم کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس دور ان اپوزیشن نے قائد ایوان کو بولنے سے روک دیا۔ سابق چیئر مین سینٹ رضا ربانی نے کہاکہ پاکستان بھٹو کی وجہ سے ہے،ایٹمی طاقت ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان کو دیا ہے،پاکستان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتاہے تو اس کے لئے بھٹو نے پھانسی کو گلے لگایا۔

انہوںنے کہاکہ آزادکشمیر میں یہ بات کہی گئی کشمیر کیلئے بھٹو نے کہاکہ ہم کشمیر کے لیے ہزار سال لڑیں گے،گھاس کھائیں گے مگر ایٹمی صلاحیت حاصل کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں اسلام آباد اور راولپنڈی سے محب وطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے ہمارا سرٹیفکیٹ امریکہ کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہے۔جو شہد پیتاہے اس نے یہ لقب اس لیے دیا کہ انہوں نے پاکستانی زمین واپس لی۔

انہوںنے کہاکہ بھٹو نے زندگی دی مگر اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا،بھٹو نے امریکی سامراج کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوںنے کہاکہ لاہور میں تمام مسلم ممالک کو اکٹھا کیا اور کہاکہ پاکستان کی آرمی اسلام کی آرمی ہے اس لیے ان کو غدار کہا گیا،اگر اسی طرح کی سیاست ہونی یے تو یہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ انہوںنے کہاکہ میرے شہد کی بات کو حزف کرلیں۔

انہوںنے کہاکہ جس سیاست کی طرف جارہے ہیں اس سے تباہی آئے گی اس طرح ہمیں میرے عزیز ہم وطنوں کو سنا ہے کیا ہم دوبارہ وہ سنے جارہے ہیں،یہاں سے یہ چلے جائیں گے ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے،ہم پھانسی کے پندے سے جھومیں گے۔قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہاکہ ہم نے تحمل کے ساتھ اپوزیشن کو سنا،اپوزیشن کے رویے کو دیکھیں اور بات جلسوں میں ہونے والی بات کی کرتے ہیں،اگر اپوزیشن نے یہی رویہ رکھا تو میں اپنے ممبران کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائیگا۔

اپوزیشن نے قائد ایوان کی تقریر کے دوران شدید احتجاج کیا اور ان کو بات کرنے سے روک دیا۔چیرمین سینیٹ نے کہاکہ تین تقریریں اپوزیشن نے کی ہیں اب قائد ایوان کو بات کرنے دیں ۔ قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہاکہ الیکشن کے جلسے میں جو گفتگو ہورہی ہے وہ پارٹی کے لیڈر کریں ہیں یہ ہماری بات نہیں سن سکتے ہیں ،ان کے لیڈروں نے جو زبان استعمال کی سب سے پہلے اس پر معافی مانگنی چاہیے پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت تلخ ہے پاکستان کے مخالف بھی آج ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان جو قائداعظم نے بنایا اس کے 1970میں دوحصے ہوئے یہ بات ہوتی رہے گی،1970میں یہ بات ہوئی کہ جو ادھر جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ انہوںنے کہاکہ دلائی کیمپ پاکستان میں بنائے گئے،امریکہ کی ایک بنچ پر سی وی لے کر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان میں ہے،ویکی پیڈیا میں جو آیا ہے سب کو پتہ ہے دودھ کو دھلا کوئی نہیں ہے،جو اخبار میں تصویر چھپی ہیں میں فوٹو شاپ کی بات نہیں کررہاہوں،ہر دفعہ جعل سازی نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ تاریخ کی بات کی دلیل دیں تو آپ دیکھ لیں سچ کی آواز کو دبا نہیں جاسکتی ہے،میں عمران خان کا سپاہی ہوں تاریخ آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے پاکستان کو برباد کرنے والے آج کہتے ہیں کہ ہمیں تاج پہناؤ۔اپوزیشن نے قائد ایوان کی تقریر کے دوران چیئرمیں کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا چیئرمین نے دھمکی دی کہ اگر آپ اپنی نشستوں پر نہیں جاتے تو ایوان کی کارروائی ملتوی کردوں گا تمام ارکان اپنی نشستوں پر چلے جائیں۔

اجلاس کے دور ان اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹ میں سینیٹر فیصل نے کہاکہ ،محب وطن کون ہے اس کو سمجھنا ہو گا جس شخص نے ساری زندگی جدوجہد کی ،عمران خان کو پاکستان کا احساس تھا جس کی وجہ سے سیاست میں آئے ۔ انہوںنے کہاکہ عمران خان نے کرکٹ کے دور میں سب کچھ ختم کرکے پاکستان آئے ،کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی عمران خان کو اقتدار میں آنے کے لیے شارٹ کٹ راستے ملے انہوں نے شارٹ راستے ٹھکرا دئیے ،جب جب اقتدار میں آئے ان کے بنک بیلنس بڑھے ہیں عوام غریب ہوئے ہیں ،اقتدار کے لیے آتے ہیں اٴْس کے بعد پھر غیر ملک چلے جاتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ پانامہ میں اربوں روپے کی جائیدادوں کا انکشاف ہوتا ،یہاں پر محب وطن وہ لوگ ہیں دوائی لینے جاتے واپس نہیں آتے۔