دنیا کے فیصلہ ساز اداروںمیں کشمیر کی جنگ جیتنے کیلئے نئے زاویوں سے اپنی پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے،سردار مسعود خان

ہمیں سوچنا ہو گا اقوام متحدہ کے چارٹر، اس کی قراردادوں اور سیلف ڈیفنس کے مسلمہ بین الاقوامی اصول کے مطابق اپنے دفاع میں لڑنے والے کشمیری دہشت گرد،نہتے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والی قابض فوج دہشت گردی سے لڑنے والی فوج کیسے بن گئی،صدر آزاد کشمیر

بدھ 14 جولائی 2021 19:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جولائی2021ء) دنیا کے فیصلہ ساز اداروںمیں کشمیر کی جنگ جیتنے کے لئے نئے زاویوں سے اپنی پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، اس کی قراردادوں اور سیلف ڈیفنس کے مسلمہ بین الاقوامی اصول کے مطابق اپنے دفاع میں لڑنے والے کشمیری دہشت گرد،نہتے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والی قابض فوج دہشت گردی سے لڑنے والی فوج کیسے بن گئی۔

اسلام آباد میں سنٹر فار لاء اینڈ سکیورٹی کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان اور جموں وکشمیر کے عوام کا مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے قانونی مقدمہ ، پاکستان کا ایف اے ٹی ایف میں مقدمہ اور بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات میں پاکستان قانونی موقف نہایت مضبوط ہونے کے باوجود ہمیں وہ مطلوبہ کامیابی اس لئے نہیں مل رہی ہے کیونکہ بھارت لاء فیئر میں ایک عرصے سے تیاری کر رہا ہے جبکہ ہم نے اس جانب وہ توجہ نہیں دی جو دینی چاہیے تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بھارت لاء فیئر کو کشمیر کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اُس نے ایک جانب اپنے قوانین اور آئین میں ترمیم کر کے کشمیر جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ ریاست ہے کو اپنی ریاست کا حصہ بنایا اور ریاست کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے کرائے اور دوسری جانب بیرونی سطح پر فیصلہ ساز بین الاقوامی اداروں کے اندر اثرو نفوذ حاصل کر کے کشمیر کے بارے میں پاکستان اور کشمیریوں کے موقف کو کمزور کیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے لاء فیئر کا سب سے زیادہ استعمال اگرچہ کشمیر کے حوالے سے کیا لیکن اُس کی مذموم کوششیں صرف جموں وکشمیر تک محدود نہیں بلکہ وہ پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لئے ایف اے ٹی ایف کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے، ہماری نیوکلیئر پروگرام کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور پاکستان اور چین کے درمیان اہم معاشی منصوبہ سی پیک کو سبو تاژ کرنے کے لئے خفیہ اور اعلانیہ کوششیں کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگست 2019کے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کے بعد لاء فیئر کی اصطلاع پاکستان میں عام ہونے لگی ہے لیکن صرف گفتگو اور تقریروں میں لاء فیئر کے تذکرے سے بات آگے بڑھنی چاہیے جس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں اور بھارت کے خلاف ایک مضبوط کیس تیار کریں تاکہ کشمیر سمیت پاکستان کے قومی اور اسٹرٹیجک مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایک عرصے کے بعد امریکہ کے آگے ’’یس‘‘ کے بجائے ’’نو‘‘ کا اظہار کر کے جو راستہ اختیار کیا وہ راستہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ پہلے اگر معاشی بیل آئوٹ کے لئے امریکہ کی طرف دیکھتے تھے تو اب ہم اس مقصد کے لئے چین کی طرف دیکھیں۔ ہمیں وہ راستہ اختیار کرنا ہے جس پر چلتے ہوئے پاکستان ہی پاکستان کو معاشی بیل آئوٹ دے۔ تقریب سے سابق چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات ، پاکستان سابق وزیر قانون احمر بلال صوفی، سنٹر فار لاء اینڈ سکیورٹی کی گورننگ باڈی کے چیئرمین فیصل مشتاق و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔