میں نے غلطی کی کہ گھروالوں سے پوچھے بغیر پرپوزل قبول کیا اور وہ پوری دنیا میں وائرل ہوگیا

گھر والوں کا کہنا ہے کہ ڈگری مکمل کرو، کیریئر بناؤ اس کے بعد جو دل کرے کرو،میری تعلیم مکمل ہونے میں 2 سال رہتے ہیں اس کے بعد ہی شادی ہونی ہوگی تو ہوگی۔ لاہور یونیورسٹی پرپوزل کی ویڈیو وائرل ہونے کے چار ماہ بعد طالبعلم کا رد عمل آ گیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 15 جولائی 2021 17:45

میں نے غلطی کی کہ گھروالوں سے پوچھے بغیر پرپوزل قبول کیا اور وہ پوری ..
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 جولائی 2021ء) : یونیورسٹی آف لاہور کی پرپوزل ویڈیو وائرل ہونے کے چار ماہ بعد طالبعلم نے رد عمل دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق یوٹیوب چینل کو دئے گئے ایک انٹرویو میں شہریار رانا نے کہا اس دن جو ویڈیو وائرل ہوئی یہ سب میرے لیے سرپرائز تھا اور مجھے بتایا گیا تھا کہ برتھ ڈے پارٹی ہے تو میں جب وہاں گیا تو مجھے پرپوز کیا گیا۔

پرپوزل پر مجھے کافی خوشی ہوئی اور ویڈیوز دیکھ کر مجھے بھی ایسا ہی لگا کہ جیسے کوئی فلمی سین ہے لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہی ہے۔ جب میں نے یونیورسٹی کے گروپ پر اپنی ویڈیوز دیکھیں، اس پر جو میمز اور ٹک ٹاک بنیں مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ میں ہوں۔ شہریار نے کہا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گھر والوں اور رشتہ داروں کو جواب دینا بہت مشکل ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد سب کچھ بہت مشکل سے ہینڈل کیا، وہ ایک بہت مشکل وقت تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، سرگودھا کے ساتھ میرا علاقہ کوٹ مومن واقع ہے اور میرے والدین یا اہلخانہ کو میڈیا کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے اور جب اس معاملے پر شدید تنقید کی گئی تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ میرے والدین پریشان تھے کہ میرا کیریئر خراب ہورہا ہے۔

انہیں اس بات کی پریشانی تھی کہ اب یہ کیسے آگے داخلہ لے کر ڈگری پوری کرے گا، کر بھی پائے گا یا نہیں یا لوگ اتنی تنقید اور نفرت کا اظہار کررہے ہیں تو کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ شہریار کا کہنا تھا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرے والدین بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے ایسے میں ظاہر ہے کہ مجھے بھی ذہنی دباؤ ہوتا تھا۔ وہ بہت مشکل وقت تھا لیکن الحمداللہ اب وہ وقت گزرچکا ہے۔

شہریار نے یونیورسٹی سے بے دخل کیے جانے کے معاملے پر یونیورسٹی کے اقدام کی حمایت کی اور کہا کہ ویڈیو جتنی زیادہ وائرل ہوگئی تھی تو ایسے میں کوئی بھی یونیورسٹی ہوتی تو وہ یہی کارروائی کرتی جو اس وقت کی گئی۔ یونیورسٹی نے اپنا فرض ادا کیا تھا اور ہمیں دفتر بلایا تھا، لیکن ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صورتحال کچھ ایسی تھی کہ میں وہاں نہیں جاسکا اور واپس گھر چلا گیا، 4 سے 5 بجے تک یونیورسٹی کی انتظامیہ نے میرا انتظار کیا تھا لیکن جب ہم نہیں گئے تو یونیورسٹی کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا۔

اُن کا کہنا تھا کہ میں یونیورسٹی انتظامیہ کا مشکور ہوں کہ اسی معاملے پر دوبارہ ایک کمیٹی بیٹھی تھی، انہوں نے معاملے پر نظرثانی کرکے مجھے یونیورسٹی آنے اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی کیونکہ کچھ لوگوں نے ہمیں یونیورسٹی سے نکالنے کی مخالفت بھی کی تھی۔ شہریار کا کہنا تھا کہ لوگوں کی ذہنیت کا کچھ کہہ نہیں سکتے پل میں تولہ پل میں ماشہ ہوتی ہے، لوگوں نے جس نفرت کا اظہار کیا اس سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور لڑکی کے لیے ہمارا معاشرہ ویسے ہی بہت سخت ہے، انہیں بخشا ہی نہیں جاتا لڑکے کے لیے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بیٹا خیر ہے۔

ویڈیو میں موجود لڑکی سے متعلق سوال کے جواب میں شہریار نے کہا کہ میں موبائل دیکھ رہا تھا تو میرے سامنے میری شادی کی خبر آئی جس پر خود بھی بہت حیران ہوا کہ میری شادی ہوگئی ہے اور مجھے معلوم ہی نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُس وقت میں نے غلطی کی کہ گھروالوں سے پوچھے بغیر پرپوزل قبول کیا اور وہ پوری دنیا میں وائرل ہوگیا۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ وائرل ہوجائے گا، جب یونیورسٹی گروپ میں ویڈیو آئی تب بھی میرے ذہن میں یہی تھا کہ ویڈیو گروپ میں ہی رہے گی باہر نہیں جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پرپوزل ویڈیو کو جب عورت مارچ سے جوڑا گیا تو پھر ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس ویڈیو کو اس سے نہیں جوڑنا چاہئیے تھا۔ اب میرے گھر والے کہتے ہیں کہ ڈگری مکمل کرو، کیریئر بناؤ اس کے بعد جو دل کرے کرو، میری تعلیم مکمل ہونے میں 2 سال رہتے ہیں اس کے بعد ہی شادی ہونی ہوگی تو ہوگی۔ شہریار نے نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ عوامی سطح پر پرپوز نہ کریں کیونکہ لوگ اسے کوئی اور رخ دے دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں لاہور کی نجی یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف لاہور میں ایک طالبہ کے ساتھی طالبعلم کو فلمی انداز میں پرپوز کرنے اور بغل گیر ہونے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس پر کافی تنقید کی گئی تھی۔
مذکورہ ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی تو یونیورسٹی انتظامیہ نے دونوں طلبا کو یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا تھا۔

مذکورہ طلبا سے معافی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا جس پر شہریار اور حدیقہ نے رد عمل دیتے ہوئے معافی مانگنے سے صارف انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا، نہ ہی ہم اس کے لیے معافی مانگیں گے،ماضی میں کئی لوگوں نے سرعام پرپوز کیا پھر ہمیں ہی کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،کیا پبلک میں کسی سے محبت کا اظہار کرنا غلط ہے۔ بعدازاں وفاقی وزیر فواد چوہدری، معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گِل، پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی اور بختاور بھٹو سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے طلبا کو یونیورسٹی سے نکالنے کی مخالفت بھی کی تھی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے ، یونیورسٹی سے بے دخل ہونے اور شدید تنقید کا سامنا ہونے پر دونوں نے آپس میں شادی کر لی تھی تاہم شہریار کے تازہ انٹرویو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں نے آپس میں شادی نہیں کی۔ جبکہ انہوں نے سر عام ساتھی طالبہ کا پرپوزل قبول کرنے پر بھی پچھتاوے کا اظہار کیا۔