اسلام آباد ہائی کورٹ کی نیب اور مریم نوازکے وکیل امجد پرویز دونوں کو پیپر بکس کا جائزہ لینے کی ہدایت

جمعرات 15 جولائی 2021 23:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جولائی2021ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب اور مریم نوازکے وکیل امجد پرویز دونوں کو پیپر بکس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے ۔جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پرمشتمل ڈویژن بنچ نے پاکستان مسلم لیگ(ن)کی مرکزی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزائوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی سماعت کے دوران مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کے وکیل امجد پرویز اور نیب پراسیکیوٹر بیرسٹر عثمان چیمہ اور دیگر عدالت پیش ہوئے، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے وکیل امجد پرویز نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ ایون فلیڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے مریم نواز کو7 سال کیس کی سزا سنائی، اسی ریفرنس میں مریم نواز پر2ملین پانڈ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیاجبکہ کیپٹن صفدرکو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، ان دونوں کو سزائیں 9 اے 5 کے تحت سنائی گئی، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا دو ملین پانڈ جرمانہ کی ریکوری ہوگئی ہے،جس پر وکیل نے کہاکہ احتساب عدالت کے فیصلے کو 19 ستمبر 2018 کو معطل کیا گیا،مریم نواز اور کیپٹن صفدر دونوں کی سزائوں کو معطل کیا گیا،اپریل 2016 میں پانامہ پیپیرز لیکس ہوئے،پانامہ میں دنیا بھر کی بڑی بڑی شخصیات کے بیرون ملک اثاثوں کا انکشاف ہوا،پانامہ لیکس کے بعد پاناما ریفرنس دائر کئے گئے،سپریم کورٹ نے پانامہ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا،سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا،سپریم کورٹ نے ایون فلیڈ اپارٹمنٹ انکوائری میں نواز شریف کو نااہل کیا،پانامہ کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی، جے آئی ٹی کا مقصد پانامہ اثاثوں کی تفتیش کرنا تھی، سپریم کورٹ میں نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز کے خلاف درخواست دائر کی گئی، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف بھی درخواستیں دائر کی گئی، جے آئی ٹی میں ایف آئی اے، نیب، آئی ایس آئی، ایم آئی کے ممبران تعینات کئے گئے،سپریم کورٹ کی حکم پر چھ ممبران پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی گئی،جے آئی ٹی کو بیرون ملک بے نامی جائیدادوں کا پتہ کرنے کا کہا گیااور ساٹھ دنوں کے اندر مکمل رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی گئی،اس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے واجد ضیا کو جے آئی ٹی سربراہ بنایا گیا، سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی کو فنڈز سمیت تمام سہولیات فراہم کی گئیں،جے آئی ٹی کو اختیار دیا گیا کہ متعلقہ دفاتر سے کسی کو بھی کام میں حصہ بناسکتے، جے آئی ٹی کو قانون کے مطابق تمام اختیارات دئیے گئے،سیکرٹری داخلہ کو جے آئی ٹی ممبران کی فول پروف سیکورٹی کے انتظامات کی ہدایت کی گئی،10 جولائی 2017 کو جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ کو جمع کرائی اور رپورٹ کی کاپیاں سپریم کورٹ کو فراہم کی گئیں لیکن رپورٹ کے والیوم ٹین کو سیکرٹ رکھا گیا،جے آئی ٹی رپورٹ میں ، کہا گیا کہ نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن صفدر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے مالکان ہیں،جے آئی ٹی رپورٹ کے اوپر نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس فائل کرنے کی اجازت دی، ریفرنس بے نامی جائیدادوں اور ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے کیا،نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں پھر ضمنی ریفرنس دائر کردی، عدالت نے استفسار کیاکہ موسی غنی و دیگر لوگ کون ہیں انکا کیا تعلق ہے اس کیس سے ،جس پر وکیل نے کہاکہ نیب نے پہلے کہا ضمنی ریفرنس اس کے خلاف دائر کریں گے، مگر اس میں بھی انکا کوئی نام نہیں،ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہاکہ جن لوگوں کے نام لئے جارہے ہیں، انکے خلاف بیرون ملک سے چیزیں مانگی ہے،جیسے ان کے خلاف ہمیں کوئی جواب آجاتا ہے ہم فائل کریں گے۔

(جاری ہے)

عدالت نے استفسار کیاکہ کیا آپ لوگوں نے کال آپ نوٹس کا جواب دیا تھا یا نہیں اس پر وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف پیش کیا تھا،عدالت نے استفسار کیاکہ جو بیان جے آئی ٹی کو دیا گیا وہ بیان ایگزیبٹ کیسے ہوا ،ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ انہوں نے جو منی ٹریل اور دستاویزات دئیے تھے، اسی کو ہی حصہ بنایا گیا،وکیل امجد پرویز نے کہاکہ سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا،سپریم کورٹ نے حسن نواز، حسین نواز اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا،مریم نواز کو نیب نے طلبی کا نوٹس جاری کیا،طلبی کا نوٹس سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کیا گیا،اسی طرح کا طلبی کا نوٹس کیپٹن صفدر کو بھی نیب نے جاری کیا،یہ نوٹس عبوری ریفرنس دائر ہونے سے پہلے بھیجے گئے،7 ستمبر کو چیئرمین نیب نے ریفرنس پر دستخط کر دیے،14 ستمبر 2017 کو نیب نے ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا،جسٹس محسن اختر کیانی نیکہاکہ کال اپ نوٹس کے پرائمری سوال کا جواب ہی آپ نے نہیں دیا،عدالت نے وکیل سے استفسار کیاکہ کیا مریم نواز نے نیب کے سوالنامے جواب دیا تھا ،نیب نے سوال نامہ بھیجا تھا مریم نواز کو ہاں یا نہ میں جواب دینا تھا،کیا نیب نے 22 اگست 2017 کے کال آپ نوٹس کے بعد کوئی نوٹس بھیجا تھا وکیل نے کہاکہ نیب نے اگست 2017 کو پہلا نوٹس بھیجا ، اس کے بعد کوئی دوسرا نوٹس نہیں ملا،چیئرمین نیب کی دستخط سے ریفرنس دائر کیا گیا،عدالت نے استفسار کیاکہ ریفرنس میں کل کتنے ملزمان تھے ،وکیل نے کہاکہ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور حسین نواز کے نام تھے،28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ جو فیصلہ آیا تھا وہ جے آئی ٹی رپورٹ پر مبنی نہیں تھا،سپریم کورٹ کا فیصلہ جے آئی ٹی کے میٹریل پر تھا،عدالت نے استفسار کیاکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کیا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے کیا وکیل نے کہاکہ دونوں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے، عدالت نے کہاکہ نیب نے تودونوں کوجے آئے ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق کیلئے بلایا، دونوں نے جے آئی ٹی کو بیان دیا لیکن نیب کے سامنے تصدیق نہیں کی ،وکیل نے کہاکہ جی، ایسا ہی ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا جب ایون فیلڈ ریفرنس دائر ہوا کوئی ملزم گرفتار تھا مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ،جے آئی ٹی کے دس والیوم میں نو والیوم منظر عام پر آئے تھے جبکہ والیوم ٹین کو سیکرٹ رکھا گیا،جے آئی ٹی رپورٹ کے والیوم ٹین کو حاصل کرنے کے لئے درخواست دائر کی گئی،والیوم ٹین کے حصول کے لیے جو درخواست دائر کی گئی وہ مسترد ہوئی،درخواست میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے متعلق دستاویزات مانگیں گئے تھے، وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ والیوم ٹین کی حصول کے لیے دائر درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کی،نہ والیوم ٹین اور نہ ہی جے آئی ٹی کو دینے والے بیانات کی کاپیاں دی گئی،اس موقع پر عدالت نے نیب کو مسنگ دستاویزات درخواست گزار کو دینے کی ہدایت کی۔

عدالت نے استفسار کیاکہ اس کیس کا 19 اکتوبر 2017 کو چارج فریم ہوا ہے ،اس موقع پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کیس کی پیپر بکس میں کچھ ریکارڈ موجود نہ ہونے کی نشاندہی کی جس پر عدالت نے نیب اور امجد پرویز دونوں کو پیپر بکس کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیپٹن ر صفدر ، مریم نواز کی اپیلوں پر سماعت 29جولائی تک ملتوی کردی۔