معیشت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے،میاں زاہد حسین

بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمزوری کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

جمعہ 16 جولائی 2021 22:52

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جولائی2021ء) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اقتصادی ترقی کے مقابلہ میں معیشت کودرپیش چیلنجز میں اضافہ کی رفتار تیز ہے جس پرکاروباری برادری کو تشویش ہے۔ بڑی صنعتوں نے کچھ عرصہ تک بہتر کارکردگی دکھائی مگراب دوبارہ ان میں کمزوری کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے مقابلہ میں مئی تک ایل ایس ایم میں بیس فیصد کمی آ چکی ہے جبکہ بڑی صنعتوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق یہ کمی 33 فیصد ہے۔ حکومت کی جانب سے بڑی صنعتوں کو دئیے جانے والی فوائد دسمبر میں ختم ہو گئے جس کے بعد جنوری سے اس شعبہ کا زوال شروع ہو گیا ہے اور یہ وہیں پہنچ گیا ہے جہاں گزشتہ سال ستمبر میں تھا۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے کہا کہ اگرآٹو سیکٹر کو دی جانے والی مراعات نے کام کیا تو بڑی صنعتوں کے مجموعی اعدادوشمار کچھ عرصہ تک بہتر رہیں گے کیونکہ ایل ایس ایم میں آٹوسیکٹر کا حصہ خاطر خواہ ہے۔ 2019میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 8.56 ارب ڈالرتھا جو2020 میں 245 ملین ڈالر سرپلس ہوگیا مگر 2021 کے پہلے تین ماہ میں یہ خسارہ 274 ملین ڈالر، اپریل میں 188 ملین ڈالراورمئی میں 632 ملین ڈالر ہو گیا یعنی امسال مئی تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ جولائی سے مئی 2021 تک تجارتی خسارے میں چھبیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے جس میں اضافہ متوقع ہے اور یہ خسارہ نئے مالی سال میں 40 سے 45 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ صنعتی شعبہ کو مراعات ملنے سے وقتی طور پر اسکی کارکردگی بہتر ہوئی ہے مگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ آٹے، چینی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے عوام کی بڑی تعداد اشیائے ضروریہ کے علاوہ کچھ خریدنے کے قابل ہی نہیں رہی ہے۔

جب کہ آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات میں مذید تیس روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمتوں میں 5 روپے فی یونٹ کا اضافہ متوقع ہے۔ اگربعض شعبوں کی مصنوعی ترقی کے لئے اخراجات جاری رہے اور تجارتی خسارہ اسی طرح بڑھتا رہا تو زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لئے نئے قرضے لینا ہونگے جس سے معاشی معاملات مذید پیچیدہ ہوجائیں گے۔