حیدرآباد سے اغوا ہونے والی بچی بلوچستان سے عین نکاح کے وقت بازیاب

بچی کو پہلے اغوا کیا گیا اور بعد میں اس کی شادی تین گنا بڑی عمر کے مرد کے ساتھ کروائی جا رہی تھی۔ پولیس

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 17 جولائی 2021 11:43

حیدرآباد سے اغوا ہونے والی بچی بلوچستان سے عین نکاح کے وقت بازیاب
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 جولائی 2021ء) : حیدر آباد سے اغوا ہونے والی بچی کو بلوچستان سے عین اُس وقت بازیاب کروا لیا گیا جب اُس کا نکاح پڑھایا جا رہا تھا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ کے ضلع حیدر آباد سے اغوا ہونے والی کم سن بچی کو پولیس نےعین نکاح کے وقت بازیاب کرالیا سندھ پولیس کے مطابق بچی کو پہلے اغوا کیا گیا اور اس کی شادی اس کی عمر سے تین گنا بڑی عمر کے مرد کے ساتھ کروائی جا رہی تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سندھ پولیس نے بچی کو بلوچستان کے علاقہ جعفرآباد سے بازیاب کروایا۔ سندھ پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ بچی کو عین اس وقت بازیاب کروایا گیا جب نکاح کی تقریب جاری تھی اور ک مسن بچی سے زبردستی دو مرتبہ رضا مندی لے لی گئی تھی جبکہ تیسری بار ہاں کرنے سے پہلے ہی اسے بازیاب کروا لیا گیا۔

(جاری ہے)

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں تعینات سب ڈویژنل پولیس آفیسر سٹی سرکل اسسٹنٹ سپرنٹینڈنٹ آف پولیس علینہ راجپر نے اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حیدر آباد کے علاقے نسیم نگر کی 13 سالہ کم سن بچی نگینہ (فرضی نام) مقامی سکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ ہے اور اس کے والد کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بچی نے اپنے بیان میں بتایا کہ گذشتہ ماہ کی 18 تاریخ کو وہ تیار ہو کر اسکول جارہی تھی کہ اس خاتون نے بچی کو پیدل اسکول جاتے دیکھ کر کہا کہ وہ پیدل اسکول کیوں جارہی ہے؟ اے ایس پی علینہ کے مطابق بچی کے بقول اس خاتون نے ایک رکشہ کرائے پر لیا اور اسے اس رکشے میں سوار کروایا اور خود بھی اس رکشے میں بیٹھ گئیں۔

بچی نے بتایا کہ اسکول کی عمارت قریب آنے سے پہلے رکشے والے کو اشارہ کرکے دوسری سڑک پر جانے کو کہا جہاں پر پہلے ہی سے ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی جس میں اس خاتون کا بیٹا عبدالشکور پہلے سے ہی موجود تھا۔ پولیس کے مطابق بچی نے مزید بتایا کہ اس خاتون نے اسے رکشے سے اُتار کر زبردستی گاڑی میں سوار کروایا اور اسے نا معلوم مقام پر لے گئے۔ جب اسے زبردستی گاڑی میں سوار کیا جا رہا تھا تو اس نے شور مچانا شروع کردیا لیکن اس خاتون نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا پھر اس کے بعد اسے بے ہوش کردیا گیا۔

اے ایس پی علینہ راجپر کے مطابق پولیس نے پہلے دو تین دن تو اس واقعہ کا مقدمہ درج نہیں کیا اور پولیس اور ان کے گھر والے اپنے تئیں اس کو تلاش کرتے رہے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ بچی کے والدین کی تو کسی سے دشمنی بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ اتنے امیر تھے تو پھر اس بچی کو کون اغوا کرسکتا ہے؟ اے ایس پی کے مطابق جب کم سن بچی کا سراغ نہ ملا تو پولیس نے علاقے کی ریکی کرنا شروع کردی تو معلوم ہوا کہ ان کی گلی میں کچھ لوگ حال ہی میں شفٹ ہوئے تھے اور اس واقعہ کے بعد وہ پورا خاندان غائب تھا۔

انہوں نے کہا کہ کم سن بچی کی والدہ کے بقول اس خاتون کا کبھی کبھار ان کے گھر آنا جانا ہوتا تھا اور اس خاتون کے بیٹے عبدالشکور کے زیر استعمال جو موبائل نمبر تھا وہ مغوی بچی کی والدہ کو معلوم تھا۔ اے ایس پی علینہ کے مطابق پولیس نے اس نمبر پر جب بھی رابطہ کیا تو وہ بند ملا تاہم جدید ٹیکٹالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پولیس کو یہ معلوم ہوا کہ پورے دن میں یہ موبائل صرف پانچ منٹ کے لیے آن ہوتا ہے جس کے بعد وہ بند ہو جاتا ہے اور اس موبائل کی لوکیشن سکھر کی بتائی جاتی ہے۔

جس کے بعد پولیس کی متعدد ٹیمیں وہاں پہنچیں اور یہ موبائل رات کے پچھلے پہر کچھ دیر کے لیے آن ہوتا تھا اور پھر بند ہوجاتا تھا تو ایسے حالات میں ملزمان کا سراغ لگانا بہت مشکل تھا۔ اے ایس پی علینہ راجپر کے مطابق اس عرصے کے دوران اغوا ہونے والی کم سن بچی کا اپنی والدہ کو فون آیا اور اس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے اور وہ اس وقت سکھر میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس نمبر سے فون آیا تھا جب اس کی لوکیشن معلوم کی گئی تو وہ بلوچستان کے علاقہ جعفر آباد کی آرہی تھی۔ اے ایس پی کے مطابق سندھ پولیس نے بلوچستان پولیس سے رابطہ کیا اور اجازت ملنے کے بعد پولیس کی دو ٹیمیں جعفرآباد میں اس علاقے میں گئیں جہاں سے یہ موبائل استعمال ہوا تھا۔ پولیس حکام نے علاقہ کے با اثر لوگوں سے بھی رابطہ کیا اور انہیں اس واقعہ کے بارے میں آگاہ کیا۔

علینہ راجپر کے مطابق علاقے کے لوگوں نے ملزمان کے گھر تک پہنچانے میں پولیس کی مدد کی۔ پولیس نے جب کم سن بچی کی بازیابی کے لیے چھاپہ مارا تو اس وقت نکاح کی تقریب ہو رہی تھی اور محلے کا مولوی کم سن بچی کا نکاح چالیس سالہ شخص ارشار عرف معشوق سے پڑھوا رہا تھا۔ اے ایس پی کے بقول اس نکاح سے متعلق اس کمسن بچی کی رضامندی حاصل کی جارہی تھی ۔

اے ایس پی کا کہنا تھا کہ اگر پولیس تھوڑی سی بھی تاخیر سے پہنچتی تو اس کمسن بچی کا نکاح ملزم ارشاد سے ہو جانا تھا۔ ملزم ارشاد کے حوالے سے اے ایس پی نے بتایا کہ وہ قتل کے دو مقدمات میں اشتہاری ہے اور وہ اس مقدمے میں نامزد دوسرے ملزم عبدالشکور کا رشتہ دار ہے۔ پولیس نے جب بچی کی بازیابی کے لیے گھر پر چھاپہ مارا تو اس وقت ملزم کی والدہ اور اس کا رشتہ دار عبدالشکور گھر پر موجود نہیں تھے۔

علینہ راجپر کے مطابق بازیابی کے بعد کمسن بچی نے پولیس کو بتایا کہ اس گھر میں چار خواتین موجود تھیں جو اس سے گھر کی صفائی اور برتن دھونے کا کام کرواتی تھیں۔ اور اگر کہیں غلطی ہوجاتی تو اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا۔ اے ایس پی نے بتایا کہ بازیاب ہونے والی بچی کا کہنا تھا کہ ایک دن گھر کی صفائی کے دوران ایک کمرے میں موجود موبائل، جو کہ گھر میں موجود خواتین کے زیر استعمال تھا، کو پکڑا اور باتھ روم میں جا کر اپنی والدہ کو اس نمبر سے کال کی تھی۔

جب وہ اپنی والدہ کو فون کر رہی تھی تو اس نے باتھ روم میں پانی کا نل چلا دیا تھا تاکہ باہر آواز نہ جائے۔ اے ایس پی نے کہا کہ اگر لڑکی اس موبائل سے اپنی والدہ کو فون نہ کرتی تو شاید اس بچی کا سراغ لگانا ناممکن ہو جاتا۔ کمسن بچی کو بازیاب کروانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں علینہ راجپر کا کہنا تھا کہ پولیس نے سب سے پہلے ملزم کے بھائی کے زیر استعمال موبائل کا ڈیٹا متعلقہ موبائل کمپنی سے حاصل کیا اور اس کے بعد جہاں پر یہ فون استعمال ہو رہا ہے اس کے قریبی موبائل ٹاور کی لوکیشن معلوم کرکے ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس موبائل نمبر پر جنتی کالز موصول ہوئیں اور جتنی کالز کی گئیں اس کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا اور جن نمبروں سے زیادہ مرتبہ کالز آئی ہوں یا کالز کی گئی ہوں تو اس نمبر پر کال کر کے ملزم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔