ازبکستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے جارہے ہیں جس سے پاکستان کی بیرونی تجارت بڑھے گی‘عبدالرزاق دائود

یورپین یونین کی طرز پر علاقائی تجارت بڑپانے کی اشد ضرورت ہے،پاکستان کو تجارت کے بجائے مینوفیکچرنگ کا مرکز بنانا چاہتے ہیں بی اور انوئسز کے مسائل جلد حل کردئیے جائیں گے ،وزیر خزانہ شوکت ترین سے اس سلسلے میں بات کی جائے گی‘لاہور چیمبر میں اجلا س سے خطاب

پیر 19 جولائی 2021 19:02

ازبکستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے جارہے ہیں جس سے پاکستان ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جولائی2021ء) وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے لاہور چیمبر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ203بی اور انوائسز کے مسائل جلد حل کردئیے جائیں گے، وزیر خزانہ شوکت ترین سے اس سلسلے میں بات کی جائے گی،پاکستان کی ازبکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت بہت کم ہے، یہ ممالک سمندر تک رسائی چاہتے ہیں، پاکستان ان کے لیے بہترین ملک ہے، ازبکستان نے گوادر میں پچیس ایکڑ زمین لی ہے جس سے باہمی تجارت بڑھے گی۔

وہ لاہور چیمبر میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں طارق مصباح نے اجلاس کی صدات کی جبکہ سابق صدور میاں مصباح الرحمن، شاہد حسن شیخ، سہیل لاشاری اور عرفان اقبال شیخ نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

(جاری ہے)

عبدالرزاق دائود نے کہاکہ اگلے مالی سال کے لیے ایکسپورٹ ٹارگٹ متعین کرنے کے لیے وزیراعظم جلد ہی چیمبرز کے صدور سے ملاقات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ازبکستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے جارہے ہیں جس سے پاکستان کی بیرونی تجارت بڑھے گی۔ انہوںنے کہا کہ وزیراعظم کا حالیہ دورہ ازبکستان بہت کامیاب رہااور بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہفتہ میں دو پروازیں شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ عبدالرزاق دائود نے کہا کہ حکومت معاشی استحکام کے ایجنڈا پر کام کررہی ہے، یورپین یونین کی طرز پر علاقائی تجارت بڑپانے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاشقند میں جلد ہی ایک نمائش منعقد ہورہی ہے جس میں پاکستانی تاجروں کو حصہ لینا چاہیے۔ پاکستان کو تجارت کے بجائے مینوفیکچرنگ کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں طارق مصباح نے کہا کہ 2020-21میں برآمدات کا حجم 25ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا جس پر وزارت تجارت خراج تحسین کی مستحق ہے، کاروباری لاگت کو کم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف صنعتوں کے خام مال کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کم کی ہے جس سے فوڈ پروسیسنگ ، سیاحت ، جوتے ، پولٹری ، پینٹ ، کیمیکلز ، مصنوعی چمڑے ، پیپر بورڈ ، آپٹیکل فائبر اور الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ وغیرہ سمیت دیگر شعبوں کو برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ نئی شق 203کے تحت حکومتی کمیٹی کو کاروباری برادری کی گرفتاری اور ان کے خلاف قانونی کاررواوی کے اختیارات دئیے گئے ہیں جو تشویشناک ہے، یہ وزیراعظم کے کاروبار دوست ویژن کے بھی منافی ہے، اس شق کو خصوصی ترمیم کے ذریعے واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فنانس بل کی شق 156(28)کے تحت درآمد کنندگان پر بھاری جرمانہ تجویز کیا گیا ہے اگر وہ کسی وجہ سے اپنی کنسائمنٹ ریلیز کروانے کے لیے کاغذی کارروائی مکمل نہیں کرسکے، یہ شق بھی واپس ہونی چاہیے، کنٹینرز کے اندر انوائس موجودگی کی شرط ان کنٹینروں پر نہیں لگائی جانی چاہئے جو پہلے ہی ٹرانزٹ میں ہیں کیونکہ بجٹ کے اعلان سے قبل ان کی ترسیل ہوچکی تھی، بریک بلک کنٹینرز کو بھی انوائس کی موجودگی کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ 2021-22میں شق 236جی کے ذریعے ایڈوانس انکم ٹیکس (0.1%)عائد کیا گیا ہے ۔فارماسیوٹیکلز ، پولٹری اور جانوروں کے کھانے ، خوردنی تیل اور گھی ، آٹو پارٹس ، ٹائر ، وارنش ، کیمیکل ، کاسمیٹکس ، آئی ٹی آلات ، مینوفیکچررز اس کی کٹوتی ڈیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز سے کریں گے، اسی طرح شق 236ایچ کے مطابق 0.5فیصد ایڈوانس ٹیکس لگایا گیا ہے ، یہ ایڈوانس ٹیکسز واپس ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیفیشل لیدر اور پی وی سی فلورنگ انڈسٹری کے خام مال پر ڈیوٹی تیار شدہ مصنوعات پر ڈیوٹی سے زائد ہوگئی ہیں، اس جانب توجہ دی جائے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ حکومت نے فارماسیوٹیکل پلانٹس، مشینری اور کیپیٹل گڈز وغیرہ کی درآمد پر رعایت شدہ سیلز ٹیکس (دس فیصد) کی سہولت واپس لے لی ہے جو بحال کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کاپر انجینئرنگ سیکٹر اور ایس ایم ایز کا اہم خام مال ہے، اس کی برآمد پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں جس سے یہ شعبے متاثر ہورہے ہیں۔

میاں طارق مصباح نے کہا کہ وفاقی / صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا / پاٹا) میں قائم صنعتوں کو خام مال کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کے غلط استعمال کے مسئلہ پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر نے سٹیٹ بینک کو تجویز کیا ہے کہ کمرشل امپورٹرز کو بیس ہزار امریکی ڈالرز تک کی ایڈوانس ادائیگیوں کے مقابلہ میں درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات کا پینسٹھ فیصد حصہ صرف دس ممالک کے ساتھ منسلک ہے، پاکستانی مصنوعات کے لیے مشرق وسطی اور افریقی خطہ میں نئی منڈیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق سینئر نائب صدور امجد علی جاوا، علی حسام اصغر، سابق نائب صدر کاشف انور، ایگزیکٹو کمیٹی اراکین شاہد نذیر، شہزاد بٹ، فیاض حیدر، ذیشان سہیل ملک، مردان علی زیدی، عظمی شاہد، عمران بشیر، عبدالودود علوی، ملک ریاض اقبال بھی اجلاس میں موجود تھے۔