اوسلو دہشت گردانہ حملے کی دسویں برسی، یادگار تاخیر کا شکار

DW ڈی ڈبلیو بدھ 21 جولائی 2021 19:00

اوسلو دہشت گردانہ حملے کی دسویں برسی، یادگار تاخیر کا شکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جولائی 2021ء) امریکا میں ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ حملوں کی یادگار دسوین برسی پر عام لوگوں کے لیے کھول دی گئی تھی مگر ناروے میں ایسا نہی ہو سکا اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس یادگار کی تعمیر کی ضرورت کو محسوس کرنے سے قاصر ہے۔

حملے کے بعد ناروے میں مساجد کی سکیورٹی بڑھا دی گئی

ناروے کے شہری حملے کے مقام والے گاؤں کے پارک اور دوسری جگہوں پر پھول کی پتیاں یا شمعیں روشن کرتے رہتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا گاؤں ترپن ملین کی آبادی والے ملک کے شہریوں کے لیے کتنی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

میموریئل کی تعمیر میں تاخیر

اوسلو دہشت گردانہ حملوں کے لیے یادگار کی تعمیر ابھی تک انجام کو نہیں پہنچ پائی۔

(جاری ہے)

اس یادگار کا ابتدائی ڈیزائن نہایت مہارت سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اسے تبدیل کر دیا گیا۔ حادثے کے مقام والے گاؤں کے باسیوں کو بھی اس میموریئل پر اعتراض ہے۔

ہلاک ہونے والوں کے والدین اور بچ جانے والوں کا خواب ان پیچیدگیوں کی وجہ سے ابھی تک ادھورا ہے اور انہوں نے تعمیر میں تاخیر کو ایک ناقابل معافی غفلت قرار دیا ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے میموریئل کے مقام پر مسلسل لوگوں کی آمد ان میں بیچینی اور ناراضی کا سبب بن سکتی ہے۔

بریوک 21 برسوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے

گلاب کے پھول اور حملے کے مقام پر کیفے

اوسلو میں مرکزی گرجا گھر کے باہر دہشت گردانہ حملوں کی یاد میں ایک ہزار لوہے سے بنے گلاب کے پھولوں کا افتتاح سن 2019 میں کیا گیا تھا۔

یوٹویا میں ایک لٹکتی انگوٹھی پر ہر ہلاک ہونے والے کا نام لکھا ہوا ہے اور حملے کے مقام کا کیفے اب ایک یادگاری تدریسی مرکز بن چکا ہے۔ اس کیفے کے ارد گرد چار سو پچانوے لکڑی کے ڈنڈے بھی نصب ہیں، جو بچ جانے والوں سے منسوب ہیں۔

تاخیر پر متاثرین ناراض

لزبتھ کرسٹین روئنلینڈ کی بیٹی سینے یوٹویا میں کیے گیے حملے میں ہلاک ہوئی تھی۔

یہ خاتوں اس وقت متاثرہ خاندانوں کے گروپ کی سربراہی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ یادگار ایک خوبصورت میموریئل ہے اور کئی حوالوں سے مرنے والوں کی یاد دلائے گی لیکن تاخیر سے انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی متاثرہ خاندان اس مناسبت سے غم و غصے کا شکار ہیں۔

اصل واقعہ

22 جولائی 2011ء کو پورا ناروے اس وقت ششدر رہ گیا تھا جب دارالحکومت اوسلو میں ایک حکومتی عمارت کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد اور اس کے بعد یوٹویا نامی جزیرے پر لیبر پارٹی کے ایک یوتھ کیمپ پر فائرنگ کے نتیجے میں 69 دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔

بائیس جولائی 2011ء میں رونما ہونے والا یہ واقعہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ناروے میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا۔ بریوک کو اگست سن 2012 میں 77 انسانوں کو ہلاک کرنے کے جرم میں 21 برس کی قید سزا سنائی جا چکی ہے۔

ناروے میں حملے: ملزم کے اہداف اور بھی تھے

خیال کیا جاتا ہے کہ یورپی ممالک میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے رد عمل میں سکیورٹی بڑھانے کی بہت اہمیت ہے اور یہ انجام کار شہری آزادیوں میں کمی کا باعث ہوتا ہے، مگر ناروے کے عوام نے اس واقعے پر اپنے کھُلے معاشرے کی پہچان کو ترجیح دی۔

ع ح/ک م (اے پی)

متعلقہ عنوان :